حقیقی رہنما اپنے پیروکاروں پر اتنا بوجھ نہیں ڈالتا جو ان کی برداشت سے زیادہ ہو نہ اتنا تیز چلتا ہے کہ پیروکاروں کو ساتھ دینا مشکل ہو جائے
مصنف: میلکم ایکس(آپ بیتی)
ترجمہ:عمران الحق چوہان
قسط:95
معبد نمبر7 کے اراکین ہر اجلاس کے بعد بڑھتے گئے گو اس کی رفتار میری خواہش سے کم تھی۔ سارا ہفتہ میں ٹرین یا بس سے سفر کرتا۔ بدھ کے روز مجھے تعلیم دینے کے لیے فلاڈیلفیا معبد نمبر 12 جانا پڑتا تھا۔ پھر میں سپرنگ فیلڈ میسا چیوسٹس معبد قائم کرنے گیا جسے ایلیا محمد نے تیرھواں نمبر دیا۔ اس معبد کے قیام میں میرے معاون برادر آسبورن ایکس تھے جنہیں پہلی بار اسلام سے میں نے ہی جیل میں متعارف کروایا تھا۔ وہیں ایک خاتون نے اگلی جمعرات مجھے ہارٹ فورڈ آنے کی دعوت دی جہاں وہ کچھ لوگوں سے مجھے ملوانا چاہتی تھی اور میں وہاں پہنچ گیا۔
روایتاً جمعرات گھریلو نوکروں کی چھٹی کا دن ہوتا ہے۔ اس خاتون کے گھر میں پندرہ کے قریب نوکرانیاں، باورچی شوفرز اور سفید فاموں کے دیگر ملازمین موجود تھے۔ یہ تو آپ نے بھی سن رکھا ہو گا کہ ”کوئی شخص اپنے ملازم کے لیے ہیرو نہیں ہوتا۔“ چنانچہ ان نیگروز کو جو سفید فاموں کے ہاتھ دیکھ چکے تھے بات سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگی اور جب یہ لوگ دیگر ملازموں اور ہارٹ فورڈ کے دوسرے سیاہ فاموں تک پہنچے تو ایلیا محمد کو بہت جلد معبد نمبر 14 کھولنا پڑا اور میں نے وہاں تعلیم کے لیے ہر جمعرات جانا شروع کر دیا۔
میں جب بھی شکاگو ایلیا محمد سے ملنے جاتا تو وہ کسی نہ کسی نئے پہلو یا نکتے کو مجھ پر آشکار کرتے۔ میں انہیں احساس دلائے بغیر نہیں رہ سکتا تھا کہ ان کی تعلیمات سے مسلح وزراء کو زیادہ تیزی کے ساتھ پیغام پھیلانا چاہیے لیکن ان کا تحمل اور دانش میری تیزی کو نرمی میں بدل دیتا۔ ایک مرتبہ انہوں نے مجھ سے کہا کہ حقیقی راہنما اپنے پیروکاروں پر اتنا بوجھ نہیں ڈالتا جو ان کی برداشت سے زیادہ ہو اور نہ ایک حقیقی راہ نما اتنا تیز چلتا ہے کہ اس کو پیروکاروں کو ساتھ دینا مشکل ہو جائے۔
”زیادہ تر لوگ جب ایک آدمی کو پرانی موٹر کار میں آہستہ سفر کرتے دیکھتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ وہ تیز چلنا نہیں چاہتا لیکن اس آدمی کو علم ہوتا ہے کہ تیز رفتاری گاڑی کو تباہ کر دے گی۔ جب اسے اچھی گاڑی ملے گی تو وہ اسے تیز بھی چلا لے گا۔“ ایک مرتبہ جب میں نے ایک کم کوش وزیر کی شکایت کی تو انہوں نے جواب دیا کہ ”میں ایک ناقابل اعتبار تیز گھوڑے پر قابلِ اعتبار خچر کو ترجیح دوں گا۔“
مجھے علم تھا کہ وہ خود بھی تیز گاڑی چلانا چاہتے تھے۔ یہ 1955ء کی بات ہے اور مجھے اس لیے یاد ہے کہ پہلی بار میں نے دور کا سفر کیا تھا۔ اٹلانٹا، جارجیا میں معبد نمبر 15 کھولنے کے لیے۔
جو مسلمان بھی کسی ذاتی غرض سے ایک شہر سے دوسرے شہر کا سفر کرتا وہ وہاں ایلیا محمد کی تعلیمات کے بیج بھی کاشت کر آتا۔ برادر جیمز ایکس، جو معبد نمبر 12 کے سرکردہ برادران میں سے تھا، اس نے اٹلانٹا میں اتنے لوگوں کی توجہ حاصل کر لی تھی کہ ایلیا محمد نے مجھے اجلاس کی سربراہی کے لیے وہاں بھیجا۔ اگرچہ میرے خیال میں ایلیا محمد کے تمام معابد کے قیام میں میرا ہاتھ رہا ہے مگر میں اٹلانٹا کے معبد کا افتتاح کبھی نہیں بھول سکتا۔
برادر جیمز ایکس کی استطاعت صرف اتنی تھی کہ اس نے اجتماع کے لیے ایک تعزیتی پارلر کرائے پر لے لیا۔ ان دنوں ”قوم اسلام“ کی معاشی حالت یہ تھی کہ جناب ایلیا محمد سے لے کر نیچے تک سب کے وسائل نہ ہونے کے برابر تھے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو ایک عیسائی نیگرو کا جنازہ اٹھ ہی رہا تھا ہمیں عزاداروں کے نکلنے تک انتظار کرنا پڑا۔
اندر پہنچ کر میں نے ان سے کہا ”آپ نے دیکھا کہ تمام لوگ ایک ایسے شخص کے لیے رو رہے تھے جو جسمانی طور پر مردہ تھا لیکن جو ہمارے سیاہ فام ذہنی طور پر مردہ ہیں قوم اسلام کو ان کی بہت فکر ہے۔ اس بات سے آپ سب کو صدمہ تو ہو گا لیکن شاید آپ کو احساس نہیں ہے کہ امریکہ میں موجود سیاہ نسل ذہنی طور پر مردہ ہو چکی ہے۔ آج ہم یہاں ایلیا محمد کی تعلیمات لے کر آئیں ہیں جو مردوں کو زندگی بخشتی ہیں۔“ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔