پاکستان ۔۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان جہاں مسلم آبادی کی اکثریت ہے اور یہاں شادی سے پہلے بچوں کی پیدائش کا نظریہ ہی غلط ہے بلکہ ہر جگہ ہی غلط ہے ۔ اسلامی قوانین کے تحت بدکاری کے جرم میں موت کی سزا ہو سکتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان میں ایسے واقعات میں مسلسل اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ آئے دن سوشل میڈیا پر، اخبارات میں ایسا دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک نو مولود بچہ کوڑے کے ڈھیر پر ملا، لوگ بنا کچھ جانے ہی یہ باتیں شروع کر دیتے ہیں کہ یہ ناجائز ہی ہو گا جو اسے یہاں پھینک دیا۔۔۔ ہو سکتا ہے کوئی بدلہ لینے کے لیے ، یا غربت کی وجہ سے یا کسی بھی اور وجہ سے ایسا کرے ۔۔ ہے تو یہ انسانیت سے گری ہوئی حرکت لیکن کسی کو حق نہیں کہ کوئی غلط رائے قائم کرے۔۔
کچھ عرصہ پہلے چائلڈ پروٹیکشن بیورو کا چکر لگا وہاں ایک بہت ہی پیارا بچہ تھا لیکن زخمی ، جاننے پر معلوم ہوا کہ اس بچے کو جب ریسکیو کیا گیا تو اس کے وجود پر چیونٹیوں کے کاٹنے سے زخم ہو چکے تھے۔۔ اور وہ بچہ رو رہا تھا لیکن کوئی اسے اٹھا نہیں رہا تھا، صرف یہ سوچ کر کہ بچہ ناجائز ہے۔۔۔ سوچنے کی بات ہے ایک 10 دن کا بچہ کوئی پھینک کر گیا ہے تو کیا اسے اتنے دن بعد یاد آیا تھا کہ یہ ناجائز ہے؟؟؟
ہر زی شعور انسان اگر یہ سوچ لے کہ بچے تو بچے ہیں، جائز نا جائز تو بعد کی بات ہے۔۔ صرف اتنا سوچ کر ان کو تحفظ دے دیا جائے کہ ان معصوم بچوں کا کیا قصور ہے اگر ان کو کسی نے پیدا کر کے چھوڑ دیا تو اس میں قصور تو ان لوگوں کا ہے نا کہ بچوں کا ،تو سزا کے حقدار بھی وہی ہونے چاہیں۔ میرے خیال میں ان معصوموں کے مجرموں کو ماں باپ کہنا بھی ماں باپ لفظ کی توہین ہے۔۔۔ پاکستان میں ایدھی فاؤنڈیشن کے اعداد و شمار کے مطابق ایک برس میں ایک ہزار سے زائد نومولود کو یا تو قتل کر دیا گیا یا پھر انہیں کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں پر پھینک دیا گیا ، ہلاک ہونے والے بچوں میں زیادہ تر نومولود بچیاں تھیں، یہ اعداد و شمار صرف پاکستان کے اہم شہروں کے تھے۔ دیہی علاقوں میں اس سے بھی زیادہ ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں، جن کے بارے میں معلومات حاصل کرنا ناممکن ہے۔ اس کے علاوہ گزشتہ برس صرف دسمبر کے مہینے میں 40 نومولود بچوں کی لاشیں گندے نالوں، جوہڑوں اور کوڑے کے ڈھیروں سے ملی تھیں۔ ایک اندازے کے مطابق سنہ 2009 میں تقریباً 1000 نومولود بچوں کی لاشیں ملیں جبکہ اس سے بھی ایک سال قبل 2008 میں یہ تعداد 900 کے قریب تھی۔
ہر طرف المناک داستانیں اور نت نئی کہانیاں موجود ہیں لیکن ہم ان کہانیوں کو اپنے ہی انداز میں پیش کرنے کے عادی ہیں کیونکہ ہم بس وہی دیکھتے اور سنتے ہیں جو ہم دیکھنا اور سننا چاہتے ہیں لیکن یہ چند واقعات ایسے ہیں جوزندگی بھر فراموش نہیں کیے جا سکتے ۔ ایک بچے کی عمرصرف چھ دن تھی لیکن اس کو جلا کر پھینک دیا گیا تھا، اسی طرح ایک امام مسجد کے کہنے پر ایک نومولود بچے کو پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا ، یہ کہاں کی انسانیت تھی اور کون سا مذہب اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ایک بچے کو اس کا قصور نہ ہونے کے باوجود سزا دی جائے۔ مجھے کوئی بتائے کونسا مذہب اور قانون لوگوں کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ ایک بے قصور بچے کی جان لیں جو اپنے حق کے لیے آواز تک نہیں اٹھا سکتا۔۔۔
جب خدا نے اسے زندگی بخشی، اسے پیدا کیا ، تو تم لوگ کون ہوتے ہو ، اس کی زندگی اور موت کا فیصلہ کرنے والے یا ناجائز کے لقب سے نوازنے والے، جب خدا نے پیدا کرتے ہوئے یہ فرق نہیں کیا تو تم لوگ کون ہوتے ہو یہ فرق کرنے والے؟ ان بچوں کو قتل مت کریں، بچے مجرم نہیں ہوتےبلکہ مجرم وہ انسان ہیں جو ان کو پیدا کرتے ہیں، یہ خدا کی مخلوق ہیں ، ان کو بھی جینے کا حق ہے۔ بن بیاہے جوڑے بچوں کو اس وجہ سے پھینک دیتے ہیں یا قتل کر دیتے ہیں کہ وہ ’ناجائز اولاد‘ ہیں لیکن بچے تو معصوم اور محبت کے لائق ہوتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کی نوبت ہی کیوں پیش آتی ہے ؟ والدین کو چاہیے ، اپنے بچوں پر نظر رکھیں اور ان کی پسند نا پسند کو مد نظر رکھ کر کو ئی فیصلہ کریں تاکہ کسی کا ایسا ریلیشن ہو نہ ہی کسی معصوم کی جان لینے کی نوبت آئے۔ گنہگار وہ ماں باپ بھی ہیں جو اولاد کے گناہوں پر پردہ ڈالتے ہیں ، اور بعد میں اس کو چھپانے کے لیے ایک اور گناہ کرتے ہیں ۔
پاکستان میں سالانہ ہزاروں کی تعداد میں نومولود بچوں کو ’ناجائز‘ قرار دیتے ہوئے خفیہ طور پر قتل کر کے دفن کر دیا جاتا ہے۔ کوڑے کے ڈھیروں پر بچوں کی ایسی لاشیں بھی ملتی ہیں، جن کے جسم کے حصے جانور کھا چکے ہوتے ہیں۔چائلڈ پروٹیکشن بیورو میں ہمیں ایسے بھی بچے نظر آئے جن کو جانوروں نے نوچا ہوا تھا ۔ کچھ ایسے بھی تھے جو معذور تھے اور ان کے والدین پالنے یا علاج کروانے کے بجائے پھینک کر چلے گئے۔اس کے علاوہ بہت سے این جی او بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کر رہے ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ یہ کیسز بڑھتے جا رہے ہیں ، کچھ عرصہ پہلے ایسا ہی ایک کیس ایک نواحی گاؤں میں پیش آیا جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، ایک معصوم بچے کی آدھ کھائی لاش کھیتوں میں سے ملی ، مجھے اس بات پر حیرانی ہوئی کہ ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایسا حادثہ ہوا اور کسی کو خبر تک نہیں ہوئی ؟
اس کے علاوہ ایک بار ایک معصوم بچے کی لاش قبرستان سے ملی جسے کتوں نے گھیرا ہوا تھا، وہاں سے گزرنے والوں کی نظر پڑی تو پولیس کو اطلاع دی گئی او رمعلومات سے پتہ چلا کہ وہ ایک 15 دن کی بچی تھی جسے آدھی رات کو سردی میں کوئی پھینک گیا۔۔ صرف یہ کہہ دینا ہی کافی نہیں کہ یہ بچے ناجائز ہیں ، کچھ لوگ مہنگائی اورغربت سے تنگ آکر یا پھر بیٹے کی خواہش کرتے ہوئے جب بیٹی دیکھتے تو انسانیت کی حدسے گر جاتے ہیں ۔ چائلڈ پروٹیکشن بیورو میں یا دوسرے اداروں میں جھولے رکھے گئے ہیں، ایدھی سینٹر میں جھولا رکھا گیا ہے ، خدارا یہ ظلم بند کریں ،اگر گناہ کر ہی لیا ہے تو اپنے گناہ کی سزا معصوم جانوں کو مت دیں ، ان کو ایسے ہی کسی جھولے میں رکھ دیا کریں تا کہ وہاں سے وہ ایسے لوگوں کا سہارا بن جائیں جو اولاد کی نعمت سے محروم ہیں اور اولاد کو ترس رہے ہیں ۔۔۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپکو گناہ کا لائسنس مل گیا بلکہ کسی کی جان لینے کا حق نہیں ہے آپکو۔۔ حکومت کو چاہیے اس پر سخت سے سخت ایکشن لے تاکہ کوئی بھی ایک گناہ کے بعد دوسرا جرم کرنے سے پہلے ایک بار ضرور سوچے ۔ کلیوں کو مسلتے ہوئے تو ان کے ہاتھ نہیں کانپتے، چلو کم سے کم قانون اتنا سخت ہو کہ یہ لوگ گناہ کرتے ہوئے کانپ جائیں۔۔۔
۔
نوٹ: یہ مصنفہ کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔