جٹ چڑھیاکچہری
گجرات کے نواحی علاقے کنجاہ کے پاس منگوال گاو¿ں ہے ‘ اس قصبے کے دو زمےندار جو رشتے مےں کزن ہےں ‘ پچھلے تےس سال سے زمےن کی تقسےم کے تنازعے مےں عدالت مےں اےک دوسرے کے خلاف حالت جنگ مےں تھے ۔تےن دہائےاں پہلے چوہدری غلام رسول اور اس کے چچا زاد بھائی نور دےن سے بڑوں کا ساےہ اٹھا، تو زمےن کی تقسےم کا سوال پےدا ہو گےا ۔زمےن کا بہتر رقبہ حاصل کرنے کےلئے دلوں مےں لالچ آےا، پھر تلخےاں آئےں اور معاملات عدالتوں تک جا پہنچے ۔کےس عدالت مےں چلنا شروع ہوا ، تو دونوں کی محنت کی کمائی وکےلوں اور ان کے منشےوں کے گھروں مےں پہنچنا شروع ہو گئی۔روز روز کے عدالتوں کے چکروں مےں ان کی زندگی عذاب بن کر رہ گئی ۔خاندان مےں نفرت اتنی بڑھی کہ اےک دوسرے کی خوشی اور غم مےں شرےک ہونا بھی چھوڑ دےا ۔فصلوں سے جو ملتا شہر مےں وکےلوں کو دے آتے اور واپسی کا کراےہ وکےل کا منشی لے لےتا ۔جب مقدمہ شروع ہوا تو دونوںجوان تھے سےنوں مےں جوش تھا‘ اور انا اور تنگ نظری کی آگ دونوں کے دلوں مےں شعلے پکڑے ہوئے تھی ۔تےس سال تک عدالتوں کی سیڑھےاںچڑھتے اترتے اب ان کی کمرےں جھکنے لگی تھےں اور سر اور داڑھی کے بال سفےد ہو چکے تھے ۔پچھلے کئی ماہ سے انہےں عدالت سے تارےخےں مل رہی تھےں ۔ وکلا ہڑتال پر تھے اور لگتا تھا کہ کےس، جس پر کبھی کبھی بحث ہو جاتی تھی شاہد اب وہ بھی نہ رہے ۔پھر اےسا ہوا کہ ان کے وکےلوں کو بھی پےسے کے علاوہ کےس سے دلچسپی نہ رہی اور ےہ دونوں خود ہی کےس کی فائےلےں لے کر عدالت کے باہر کھڑے ہو جاتے اور چوہدری غلام رسول بنام نور دےن کی آواز سن کر عدالت کے اندر جاتے اور انہےں اگلی تارےخ بتا دی جاتی ۔ اےک دن اےسے ہی صورت حال سے دوچار دونوں عدالت کی سیڑھےاں اتر رہے تھے تو چوہدری غلام رسول نے اپنے چچا زاد بھائی نور دےن کو آواز دی اور کہا کہ ےار بس کرو ۔۔۔۔تےس سال ہو گئے ہمےں ان عدالتوں سے اپنا حصہ مانگتے ہوئے ۔۔۔کئی جج تبدےل ہو گئے۔۔۔ ہمےں حصہ دےتے ہوئے ۔۔۔ کئی سال سے ہمارے وکےل جھوٹ بول بول کر ہمارے حصے کو علےحدہ کرنے کی کوشش کرتے رہے لےکن ہمےں کچھ نہےں ملا ۔پھر اس نے نور دےن کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بولا ۔۔۔ مےرے بھائی ہم دونوں جانتے ہےں کہ ہمارا حصہ کےا ہے؟ “۔ ہم سے کوئی ڈھکی چھپی بات نہےں ۔مےرا حصہ کےا بنتا ہے؟ ۔۔۔تمہارا کےا بنتا ہے؟۔۔۔ہم دونوں سے بہتر کوئی نہےں جانتا ۔۔۔آو¿ ہم خود ہی فےصلہ کر لےں ۔۔جو جو ہمارا حصہ ہے لے لےں ۔نور دےن کو اےسے لگا کہ جےسے اس کے کندھوں سے تےس سال کا بوجھ ےکدم اتر گےا ہے ۔اس نے بھائی کو گلے لگاےا ۔۔۔وکلا کے دفتروں کی طرف حقارت سے دےکھا اور دونوں ٹانگے پر بےٹھ کر گاو¿ں روانہ ہوگئے ۔راستے مےں دونوں نے اپنے مقدمے کی فائلےں بھمبر نالے مےں پھےنک دےں اور نالے کے آخری حصے مےں جلیبیو ں کی دوکان پر رک گئے ۔دونوں نے جی بھر کے جلیبیاں کھائےں ان کے منہ مٹھاس ان کے دل شےرےنی سے بھرے ہوئے تھے ۔ دونوں نے عہد کےا کہ زندگی کا طوےل عرصہ انہوں نے اس بے مقصد لڑائی مےں گزار دےا اور اےک دوسرے کے غم اور خوشی کا حصہ بھی نہ بن سکے ۔اب ہمےں خوشی ہے کہ اےک دوسرے کے جنازے مےں ضرور شرےک ہوں گے ۔ےہ واقعہ کوئی معمولی نوعےت کا نہےں ہے ہماری کچہریوں مےں اکثرےت اےسے ہی کےسوں کی ہے جہاں اپنے حصہ سے زےادہ مانگ رہے ہےں ، وکےل ہمےں جھوٹے دلاسے دے رہے ہےں ۔ ججوں کو ہماری سمجھ نہےں آتی ۔ لےکن ہم سب کچھ سمجھتے ہےں ۔عدالت مےں کھڑے دونوں فرےق مقدمے کی حقےقت کو جانتے ہےں۔ انہےں اپنے حق اور سزا اور جزا کا بھی پتہ ہے ۔بس اےک ذہنی فتور ہے جو ان کو گمراہ کئے ہوئے ہے اور وہ کورٹ کچہری کی خاک چھاننے پر مجبور ہےں ۔ مےرے اےک دوست شاہ صاحب ہےں ‘ وکالت کا کرتے ہےں ۔اےک دن مےرے سامنے ہی کسی سائل کے کےس کے حوالے سے باتےں کر رہے تھے ۔دےر تک وہ اس بحث مےںالجھے رہے ۔ آخر کار شاہ صاحب نے انہےں ےقےن دلا دےا کہ وہ جو چاہتے ہےں انہےں آسانی سے مل جائے گا ۔سائل کے جانے کے بعد مےں نے ۔۔۔شاہ صاحب سے پوچھا مجھے قانونی معاملات کا تو علم نہےں ۔۔۔لےکن جہاں تک مےں نے سنا اور سمجھا ہے اس معاملے مےں آپ کے سائل کا تو کوئی حصہ نہےں بنتا ۔شاہ صاحب مسکرا کر بولے ۔۔۔ےہ مےں بھی جانتا ہوں ۔۔۔لےکن مجھے بھی تو اپنا حصہ لےنا ہے ۔اس کالم کے لکھنے کا بنےادی مقصد بھی ےہی ہے ۔کہ عدالتوں مےں دھکے کھانے والے فرےقےن اگر کسی روز عدالت مےں کھڑے ہو کر اےک دوسرے کے دل کی آواز سنےں اور اعتراف کر لےں کہ اس مقدمے مےں ان کا کتنا حصہ ہے ؟۔ ان کا قصور کےا ہے؟ ۔ ان کی جزا اور سزا کےا ہے؟ تو انہےں وکلا کی بحث اور جج سے رحم طلب نظروں سے دےکھنے کی ضرورت نہےں پڑے گی۔اس کالم کو پڑھنے کے بعد عدالت مےں کھڑے دو فرےقوں نے کورٹ کچہری مےں اپنے حصے سے زےادہ کی لےنے کی خواہش ختم کرکے اپنے کےس کو ختم کر دےا ۔ تو ہم سمجھےں گے کہ ہماری محنت رائےگاں نہےں گئی ۔ہماری اطلاعات کے مطابق لوگوں کو کورٹ کچہری کی خرافات سے بچانے کےلئے متبادل مصالحتی سسٹم بھی ارباب اختےار کے زےر غور ہے۔ سرکاری سطح پر ان تجاوےز کو وزارت قانون کی مددسے عملی شکل دی جائے گی تو لوگوں کی مشکلات حل ہوں گی اور عدالتوں پر اضافی بوجھ بھی کم ہو جائے گاکےونکہ” جٹ چڑھےا کچہری “۔۔۔۔بلّے نی بلّے ۔۔۔۔گانے کی حد تک تو ٹھےک ہے لےکن حقےقت مےں کچہری مےں پہنچ کر جٹ کے پاس کچھ بھی نہےں رہ جاتا ۔۔۔اور رہی سہی پونجی بھی بک جاتی ہے ۔ ٭