چھ عالمی طاقتوں سے ایران کا ایٹمی معاہدہ
ایران اور امریکہ سمیت چھ عالمی طاقتوں کے درمیان جنیوا میں ایک ایٹمی معاہدہ طے پا گیا ہے جس کے تحت ایران اپنا ایٹمی پروگرام محدود کرنے پر رضا مند ہو گیا ہے، ایرانی رہبر اعلیٰ آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے معاہدے کی توثیق کر دی ہے۔ معاہدے کے تحت ایران یورینیم کی افزودگی 5 فیصد تک محدود کر دے گا۔ جو یورینیم بیس فیصد تک افزودہ ہے اس کے ذخائر کا کچھ حصہ تلف کر دیا جائے گا جبکہ باقی ذخائر کو ایٹمی ایندھن کے طور پر استعمال کیا جا سکے گا۔ ایران، آراک کے مقام پر بھاری پانی کے جوہری منصوبے پر کام روکے گا جوہری ہتھیاروں کے عالمی ادارے کو جوہری تنصیبات تک روزانہ کی بنیاد پر رسائی دی جائے گی ان اقدامات کے بدلے میں چھ ماہ تک جوہری سرگرمیوں کی وجہ سے ایران پر کوئی نئی پابندی نہیں لگائی جائے گی۔ قیمتی دھاتوں اور فضائی کمپنیوں کے سلسلے میں پہلے سے عائد چند پابندیاں معطل کر دی جائیں گی۔ ایرانی تیل کے منجمد اثاثے جو تقریباً 4 ارب بیس کروڑ ڈالر ہیں جاری کر دیئے جائیں گے۔ اور ایران موجودہ حد کے مطابق تیل کی فروخت جاری رکھ سکے گا، امریکی صدر اوباما نے معاہدے کے اعلان کے بعد کہا کہ چھ ماہ کے دوران اگر ایران نے معاہدے کی پاسداری نہ کی تو پابندیوں میں دی جانے والی چھوٹ ختم کر دی جائے گی۔ یورپی یونین کی اعلیٰ عہدیدار کیتھرین ایشٹن کے مطابق یہ جامع حل کی جانب پہلا قدم ہے، امریکہ کا کہنا ہے معاہدے کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ ایران کو جوہری بم بنانے سے روکا جائے گا۔
دنیا بھر میں اس تاریخی معاہدے کا خیر مقدم کیا گیا ہے، البتہ اسرائیل اور سعودی عرب نے معاہدے کو پسند نہیں کیا اور اسے مسترد کر دیا ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے یہ معاہدہ تاریخی غلطی اور ایرانی فتح ہے ہم اسے ماننے کے پابند نہیں ۔امریکہ اور مغربی دنیا ایران کے ایٹمی پروگرام کی مخالفت کرتے ہیں لیکن وہ اس معاملے کو پر امن طور پر حل کرنے کی وکالت بھی کرتے ہیں اور بالآخر پر امن راستہ ہی بروئے کار آیا ہے لیکن ایرانی ایٹمی سرگرمیاں جس ایک ملک کی نگاہوں میں خار کی طرح چبھتی رہی ہیں وہ اسرائیل ہے اور اس نے بار ہا امریکی قیادت کو ایران پر حملے کے لئے ’اکسایا‘ یہ تو امریکی صدور کی بالغ نظری تھی کہ انہوں نے ایران کے خلاف جنگ کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ جب امریکہ نے عراق پر حملہ کیا اور بعد ازاں افغانستان کو بھی جارحیت کا نشانہ بنا ڈالا تو اسرائیل نے امریکہ پر دباﺅ ڈالا کہ لگے ہاتھوں ایرانی جوہری پروگرام سے بھی نبٹ لیا جائے لیکن امریکہ کو اپنی تمام تر جنگی صلاحیتوں کے باوجود یہ یقین تھا کہ دو ملکوں کو تاراج کرنے کے ساتھ ساتھ ایران سے نبٹنا مشکل ہوگا اور امریکہ خطے میں اُلجھ کر رہ جائے گا۔چنانچہ اسرائیلی دباﺅ کے باوجود وہ اس اقدام سے باز رہا۔
امریکہ یہ بھی سمجھتا تھا کہ ایران اس کے لئے تر نوالہ ثابت نہیں ہوگا ایران شاندار تاریخ کا وارث ہے اور تاریخ میں اونچ نیچ کا سامنا کرنے کے باوجود کبھی کسی بڑی طاقت کا غلام نہیں رہا۔ مختلف شاہی خانوادوں کے ادوار میں ایران عالمی طاقتوں کی سازشوں کا شکار تو بنا رہا لیکن غلامی کے طوق سے ہمیشہ محفوظ رہا، امریکہ نے ایک مرتبہ شاہ ایران محمد رضا شاہ پہلوی کی حکومت بچا دی تھی اور ڈاکٹر محمد مصدق کے زمانے میں پہلی جلا وطنی کے چند روز بعد ہی اسے دوبارہ تخت پر بٹھا دیا تھا، لیکن امام خمینی نے جب انقلاب برپا کیا اور محمد رضا شاہ دوسری مرتبہ جلا وطن ہوئے تو انہیں دوبارہ وطن کی خاک کی دید نصیب نہ ہو سکی۔ انقلاب کے بعد پاسدارانِ انقلاب نے امریکی سفارت خانے پر قبضہ کر لیاتھا۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ امریکہ اب بھی پہلے کی طرح شاہ کو دوبارہ برسر اقتدار لانے کی کوشش کرے گا۔ اس لئے پاسدارانِ انقلاب نے طویل عرصے تک سفارتی عملے کو یرغمال بنائے رکھا۔ امریکہ نے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے عملے کو نکالنے کی ایک کوشش کی جو ناکام رہی اور ہیلی کاپٹر ایران سے اڑ ہی نہ سکے۔ تب سے اب تک ایران اور امریکہ میں سفارتی تعلقات قائم نہیں ہو سکے۔ یہ عین ممکن ہے کہ ایٹمی معاہدے کے بعد جب معاملات بالآخر پوری طرح سلجھ جائیں تو امریکہ اور ایران کے سفارتی تعلقات کی راہ بھی ہموار ہو جائے۔
ایران کے صدر حسن روحانی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اور بعد ازاں صدارتی منصب سنبھالنے کے بعد کہا تھا کہ دنیا بھر کے ملکوں سے اچھے تعلقات قائم کئے جائیں گے، ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں دنیا کے تحفظات ختم کئے جائیں گے اور ایران کی عالمی تنہائی ختم کی جائے گی، وہ جون میں صدر منتخب ہوئے تھے اورتھوڑے ہی عرصے میں انہوں نے ایسا کار نامہ کر دکھایا ہے کہ پوری دنیا میں اس معاہدے کو سراہا جا رہا ہے۔ ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کا فتویٰ موجود ہے کہ ایران جوہری بم نہیں بنانا چاہتا اور اس ہلاکت خیز بم کو انسانیت دشمنی کے مترادف سمجھتا ہے۔ لیکن اسرائیل نے امریکہ اور یورپ کو اس حد تک ڈرایا ہوا تھا کہ وہ اس فتوے کے باوجود یہ سمجھتے تھے کہ ایران ایٹم بم بنانے کے بہت قریب پہنچ گیا ہے حالانکہ غیر جانبدار سائنسدانوں کا خیال تھا کہ ایران ابھی اس منزل سے بہت دور ہے کیونکہ ایٹم بم بنانے کے لئے یورینیم کو 95 فیصد تک افزودہ کرنا پڑتا ہے جبکہ ایرانی صلاحیت ابھی بمشکل 20 فیصد تک پہنچی تھی، تاہم مغربی دنیا اس سے بھی خوفزدہ تھی، اور یہ پروپیگنڈہ شدو مد سے کیا جا رہا تھا کہ ایران ایٹم بم بنانے کے لئے قریب پہنچ گیا ہے۔ اس پر مستزاد سابق ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کے بیانات تھے جن سے اسرائیل لرزہ براندام رہتا تھا کیونکہ وہ نہ تو اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے کے لئے تیار تھے اور نہ ہالو کاسٹ کے افسانوں کو درست مانتے تھے، اور اس کا بر ملا اظہار بھی کر دیا کرتے تھے، شاید اسی لئے خوفزدہ مغربی دنیا یہ سمجھتی تھی کہ جونہی ایران کے پاس ایٹمی ہتھیار آئے گا وہ اسرائیل کو نیست و نابود کرنے کی راہ پر چل پڑے گا۔ اسرائیل نے ایک زمانے میں بغداد پر فضا ئی حملہ کر کے عراق کا ایٹمی ری ایکٹر تباہ کر دیا تھا اسرائیل ایسا ہی سلوک ایرانی ایٹمی پروگرام سے کرنا چاہتا تھا لیکن اس میں اسے کامیابی نہیں ہوئی اس لئے اب وہ معاہدے کو مسترد کر کے اپنی راہ پر چلنے کا اعلان کر رہا ہے۔امریکہ اور مغربی دنیا نے ایران کے ساتھ جو معاہدہ کیا ہے اس سے خطے کی سیاست کا رخ بدل جائے گا، ایران تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہے۔ پاکستان نے ایران سے گیس درآمد کرنے کے لئے دونوں ملکوں کے درمیان گیس کی پائپ لائن بچھانے کا معاہدہ کیا ہوا ہے۔ سرحد تک پائپ لائن ایران نے بچھا دی ہے۔ پاکستان نے اپنے حصے کا کام کرنا ہے لیکن امریکہ کی طرف سے پاکستان کو پابندیوں کا ہوَّا دکھایا جا رہا تھا، جبکہ ایران کہہ رہا تھا کہ معاہدے کے مطابق پاکستان کو پائپ لائن بچھانے کا کام شروع کرنا چاہئے لیکن اس مقصد کے لئے سرمایہ کار دستیاب نہیں تھے، قرضہ دینے والے بینک بھی خوفزدہ تھے، انہیں خوف تھا کہ کہیں پابندیوں کی زد میں نہ آ جائیں۔ اب اس معاہدے کے بعد نہ صرف ایران پر معاشی پابندیاں تدریجاً ختم ہو جائیں گی بلکہ ایران پاکستان پائپ لائن بچھانے کی راہ بھی ہموار ہو گی ۔
ایران کو 2010ءسے سخت اقتصادی پابندیوں کا سامنا تھا، ایرانی کرنسی کی قیمت تیزی سے گر رہی تھی۔ جس کی وجہ سے ملک میں گرانی کی زبردست لہر آئی ہوئی تھی۔ جو براہ راست ایرانی عوام کے معیارِ زندگی کو متاثر کر رہی تھی غالباً ایسے ہی معاملات کو پیش نظر رکھ کرایرانی ووٹروں نے حسن روحانی کو منتخب کیا جو اعتدال کی بات کرتے تھے اور ایران کو عالمی برادری کے ساتھ چلنے کی راہ ہموار کرنا چاہتے تھے۔ حسن روحانی نے اپنے اس وعدے کو عملی جامہ پہنا دیا اور ایران کو ایک ایسی کامیابی دلا دی جس کے نتیجے میں ایران پر پابندیاں ختم ہوں گی اور فوری طور پر ایران کو 7 ارب ڈالر کا ریلیف ملے گا۔ پابندیوں کے عرصے میں ایران نے 20 ارب ڈالر کا نقصان اٹھایا اب امید ہے جلد ہی خطے میں اقتصادی سرگرمیوں کا ایک نیا دور شروع ہوگا اور علاقائی تجارتی سرگرمیاں فروغ پائیں گی۔ کشیدگی کم ہوگی ا ور سفارتی سرگرمیوں کا ایک نیا دور شروع ہوگا جو خطے کو خوشحالی کے نئے دور سے ہمکنار کرے گا۔ ایران نے اپنے رویئے سے ثابت کیا ہے کہ کشیدگی جیسی بھی ہو اسے تدبر کے ذریعے کم کیا جا سکتا ہے بس سوچ میں توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ایران نے محمود احمدی نژادد کا دور بھی دیکھا مغربی دنیا ان کی کھری کھری باتوں سے بدکتی تھی اور وہ خود بھی دنیا کو خوفزدہ کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے تھے۔ اب حسن روحانی کا دور خوشگوار تازہ اور معطر ہوا کا ایک ایسا جھونکا ثابت ہو رہا ہے جس کی مہک نہ صرف ایران بلکہ قرب و جوار میں بھی محسوس ہوگی اور خوفزدہ مغربی دنیا بھی سکھ کا سانس لے سکے گی۔
آج مارکیٹ میں ٹماٹر، پیاز اور آلو کی فضل آ رہی ہے تو نرخ بھی کم ہو رہے ہیں جو مزید کم ہوں گے ہمارے میڈیا والے بھائیوں کو اس کا دھیان رکھنا چاہئے بازار میں بہترین کیلا 60 سے ستر روپے درجن اور درمیانہ 40 سے 50 روپے درجن مل رہا ہے جبکہ سیب 80 روپے سے ایک سو روپے تک فروخت ہو رہا ہے اگر چہ یہ قیمت بھی زیادہ ہے لیکن ہیجان پیدا کر دینے والی تو نہیں۔ کیلے کا سستا ہونا مال کی زیادہ آمد کے باعث ہے اس لئے بہتر عمل یہ ہے کہ موقع پر جا کر تھوک اور پرچون کے علاوہ پھڑیا قیمتوں کا بھی جائزہ پیش کرنا چاہئے۔