قومی سیاست میں علاقائیت کا رجحان

قومی سیاست میں علاقائیت کا رجحان
 قومی سیاست میں علاقائیت کا رجحان

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بلدیاتی انتخابات کا ایک اور مرحلہ طے ہو گیا۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کا پلہ بھاری رہا تو سندھ میں پیپلزپارٹی کا۔ اِدھر حیدرآباد اور میرپور کے انتخابات میں بھرپور کامیابی حاصل کرکے ایم کیو ایم نے کراچی کے متوقع بلدیاتی انتخابات میں امکانات کی جھلک بھی دکھا دی۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے بعد آزاد امیدوار سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھرے، ان کے بعد پی ٹی آئی کا نمبر آیا۔ آزاد امیدواروں کا مطلب بھی حکمران پارٹی کی جیت ہوتی ہے،کیونکہ انہیں اسی میں اپنا بھلا نظر آتا ہے، البتہ پنجاب میں بہت سے آزاد امیدوار ایسے بھی جیتے جو پرانے جیالے ہیں، لیکن انہیں خدشہ تھا کہ اگر آصف علی زرداری کا جھنڈا لے کر کھڑے ہوئے تو ہار جائیں گے۔ پی ٹی آئی کو جو جھٹکا لگا، اس کی ایک وجہ ریحام خان کی طلاق بھی بتائی جاتی ہے، جس نے الیکشن سے ایک دن پہلے پی ٹی آئی کے کارکنوں کو اگر نادم نہیں کیا تو ان کا جوش و خروش چھین لیا۔ سندھ میں جس اپ سیٹ کا بڑا چرچا رہا، وہ آصف زرداری کے باغی دوست ذوالفقار مرزا کی اپنی میونسپلٹی میں بھرپور اور ضلع بدین میں اکثریت سے کامیابی تھی۔



پیپلزپارٹی نے اگرچہ اس علاقے میں بھی بلاول کارڈ کھیلا، لیکن پتہ ضائع گیا۔ اس ناکامی پر پیپلزپارٹی کو شدید صدمہ ہوا، اس لئے بھی ایک قدرتی امر ہے کہ ذوالفقار مرزا نے آصف زرداری کو چیلنج دے کر یہ مقابلہ جیتا۔ بدین کی طرح کے نتائج کی کراچی میں لیاری کے علاقے میں بھی توقع کی جا رہی ہے، کیونکہ یہ علاقہ ذاوالفقار مرزا کے زیر اثر خیال کیا جاتا ہے، جسے انہوں نے حکومت سندھ میں اپنی وزارت داخلہ کے دوران ایم کیو ایم سے مقابلے کے لئے کیل کانٹوں سے لیس کیا تھا۔ یہ تمام معاملات اپنی جگہ، لیکن انتخابات کے نتائج کچھ ایسے سوال بھی اٹھاتے ہیں، جن کا جواب آسانی سے سمجھ میں نہیں آتا۔ پہلا سوال یہ ہے کہ کیا قومی سیاست میں علاقائیت کا وہ رجحان اب بھی برقرار ہے جو تیس سال قبل نوازشریف کو لیڈر بنانے کے لئے ’’جاگ پنجابی جاگ‘‘ کا نعرہ لگا کر پیدا کیا گیا تھا۔ ولی خان کے خلاف غداری کا مقدمہ واپس لے کر پٹھانوں کی قیادت ان کے حوالے کر دی گئی تھی اور کراچی میں بھی جئے مہاجر کا نعرہ گونجنے لگا تھا۔ یہ تمام کوششیں پیپلزپارٹی کو قومی پارٹی سے علاقائی میں تبدیل کرنے کے لئے کی گئی تھیں، تاکہ وہ قومی سطح پر اقتدار کے لئے خطرہ نہ بن سکے۔ اس منصوبے کو اس وقت تو کامیابی نصیب نہ ہوئی، لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد اس خواب کو شرمندۂ تعبیر ہونے میں زیادہ عرصہ نہیں لگا۔ یہ اور بات ہے کہ اس وقت تک خواب دیکھنے والوں کی آنکھیں کھل چکی تھیں اور وہ ملک میں قومی قیادت کی حامل کوئی پارٹی تشکیل دینے کے خواہاں، بلکہ اس کے لئے کوشاں تھے۔



دوسرا سوال کرنے سے قبل یہ تمہید باندھنا ضروری ہے کہ عمران خان اور ذوالفقار مرزا کی طرف سے چلائی گئی زبردست تحریکوں سے قطع نظر حقیقت یہ ہے کہ نوازشریف اور آصف علی زرداری کے حامی بھی انہیں دودھوں دھلا نہیں سمجھتے اور نہ ہی الطاف حسین کے حامی انہیں مہاتما گاندھی کی طرح تحریک عدم تشدد کا علمبردار سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔۔۔ تو کیا انتخابی نتائج سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ پنجاب یا سندھ کے عوام کرپشن کے حامی ہیں یا مہاجر دہشت گردی کی حمایت کرتے ہیں؟ پہلے سوال کا جواب کچھ یوں سمجھ میں آتا ہے کہ جس طرح علاقائیت اور فرقہ بندی کی سیاست کی سرپرستی کے ذریعے اسے فروغ دینے میں گیارہ سال کا عرصہ لگا تھا، اسی طرح علاقائیت سے بالاتر قومی جذبے کو فروغ دینے کے لئے کم از کم ایک دہائی تو درکار ہوگی، بلکہ شائد اس سے بھی زیادہ وقت لگے، کیونکہ علاقائیت اور فرقہ بندی کو پروان چڑھانے کا کام ایک بااختیار شخص نے ذاتی توجہ کے ساتھ مسلسل گیارہ سال تک انجام دیا تھا، جبکہ اس کی روک تھام اور قومی جذبے کے فروغ کا کام مختلف لوگ وقفے وقفے سے اپنے اپنے انداز میں انجام دے رہے ہیں۔


دوسرے سوال کا جواب کچھ یوں بن سکتا ہے کہ جب تک جمہوریت مکمل طور پر نشوونما نہیں پاتی اور سیاست کا دھارا قومی سطح پر روانی سے نہیں بہنے لگتا ،اس وقت تک اگر غیر سیاسی ماحول میں جنم لینے والی لیڈرشپ کو سیاستدانوں کے بجائے ٹریڈ یونین لیڈرسمجھا جائے تو معاملے کو سمجھنا آسان ہو جائے گا۔ اس زاویے سے دیکھا جائے تو یہ جاننے میں دیر نہیں لگے گی کہ موجودہ سیاسی قائدین کے حامی اس بات سے صرف نظر کرتے ہوئے کہ ان کے لیڈر کس کردار کے حامل ہیں، قومی سطح پر سیٹھوں سے اپنے معاملات طے کرنے کے لئے انہیں اپنا بہترین سودا کار ایجنٹ سمجھتے ہیں اور اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ان کے ذریعے نہ صرف وہ اپنی تنخواہیں بڑھوا سکیں گے، نوکریاں پکی کروا سکیں گے ،بلکہ اپنے عزیز و اقربا کو بھی بھرتی کروا سکیں گے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ان کے حامیوں پر ان کا یہ یقین ماضی میں ان کی شاندار کارکردگی کی بنا پر ہے اور پھر یہ کہ اپنے اپنے زمانے میں وہ سیٹھوں کے چہیتے بھی تو رہے ہیں۔


انسان ایک جذباتی وجود ہے اور ہمیشہ جذبات ہی انسان

مزید :

کالم -