بلدیاتی انتخابات نے سیاسی جماعتوں کی مقبولیت کا بھانڈا پھوڑ دیا

بلدیاتی انتخابات نے سیاسی جماعتوں کی مقبولیت کا بھانڈا پھوڑ دیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

حالیہ بلدیاتی الیکشن نے کئی سیاسی جماعتوں کا پول کھول دیا ۔ کون کتنے پانی میں ہے؟ یہ حقیقت بھی سب کے سامنے آ گئی اور پہلی بار یہ بھی ہوا کہ عمران خان سمیت تحریک انصاف کے سب رہنماؤں نے بلدیاتی انتخابات کے اس دوسرے مرحلے کے نتائج کو من و عن تسلیم کیا۔ البتہ الزام کا یہ تڑکا ضرور لگایا کہ حکومتی مشینری ان انتخابات پر اثر انداز ہوئی ہے۔ ’’اثرانداز‘‘ ہونے کی یہ منطق گڑھی گئی کہ وفاقی حکومت سمیت، پنجاب کی صوبائی حکومت نے اربوں روپے کے فنڈز ان بلدیاتی انتخابات سے پہلے تمام بلدیاتی حلقوں میں جھونک دئیے تھے۔ جس سے انتخابات کے نتائج پر اثر پڑا۔ اس طرح الیکشن کمیشن کے اُس ضابطۂ اخلاق اور قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی ہوئی جو اُس نے انتخابات کے لئے تمام سیاسی جماعتوں، امیدواروں اور حکومت کے لئے مقرر کر رکھے تھے۔ مقرر کردہ ان قواعد کی خلاف ورزی درحقیقت ’’ دھاندلی‘‘ ہی کی ایک شکل تھی۔ تو گویا تحریک انصاف نے ایک طرح سے پھر ’’دھاندلی‘‘ کا وہ پرانا الزام دہرا یا جس کے لئے وہ مشہور ہے۔


تحریک انصاف جو تبدیلی کے نعرے کے سلوگن کے ساتھ منظر عام پر آئی تھی اور اس نعرے کی بدولت بے پناہ مقبولیت بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ حالیہ بلدیاتی الیکشن میں اُس مقام پر کھڑی نظر نہیں آئی جس کی وہ دعویدار تھی۔پنجاب میں اگرچہ اسُے دو سو سے زائد نشستیں حاصل ہوئیں لیکن ن لیگ کو حاصل ہونے والی نشستوں کے مقابلے میں پی ٹی آئی کی ان نشستوں کو وہ حیثیت حاصل نہیں کہ جس سے عوام میں اُن کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہو۔


عمران خان نے سندھ میں بھرپور انتخابی مہم چلائی اور کوشش کی کہ وہ بلدیاتی انتخابات کے اس دوسرے مرحلے میں زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کر سکیں لیکن انہیں ایسی کامیابی نہ ملی۔ اس کے برعکس ن لیگ سندھ سے کافی تعداد میں نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ سندھ میں سب سے بڑا دھچکا پیپلز پارٹی کو لگا۔ اگرچہ وہاں عددی لحاظ سے اُسے ہی واضح برتری حاصل ہے۔ لیکن بدین میں جو کچھ اُس کے ساتھ ہوا، وہ قابلِ غور ہے اور اس تجزیے کا متقاضی بھی کہ آخر کیا ہوا کہ بدین جیسے شہر میں جو پیپلز پارٹی کا مضبوط گڑھ تھا، کیوں اُسے ذوالفقار مرزا گروپ کے ہاتھوں سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔پیپٍلز پارٹی کے ٹکٹ ہولڈرز کی بدین میں عبرت ناک شکست سے جہاں یہ سوال اٹھا کہ آیا سندھ سے بھٹو ازم ختم ہو رہا ہے، یا بدین کی یہ ہزیمت پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت کی نااہلی کا ثبوت ہے۔ تو یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہونا چاہیے کہ پنجاب ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی طرح اب سندھ میں بھی پیپلز پارٹی کی سیاست ختم ہو رہی ہے۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی کا حال تو ہم دیکھ چکے ہیں۔پیپلز پارٹی اب وہاں کہیں نظر نہیں آتی۔ ہر پارٹی کی صوبائی قیادت بھی اپنی جماعت کے لئے وہ فعال کردار ادا نہیں کر پائی جو اُسے ادا کرنا چاہیے۔ اسی لئے وہ ہر سطح پر ناکام نظر آتی ہے۔ کسی بھی جماعت کی سیاسی مقبولیت کا فیصلہ عوام اپنے ووٹ کے ذریعے کرتے ہیں، حالیہ بلدیاتی الیکشن اور اس سے قبل 2013ء کے جنرل الیکشن کے نتائج نے ثابت کر دیا ہے کہ پیپلز پارٹی اب نہ صرف ملک کی ایک غیر مقبول جماعت بن گئی ہے، بلکہ اس کی ’’قیادت‘‘ کے حوالے سے بھی جو سوال امڈ رہے ہیں وہ اتنے گمبھیر اور پریشان کن ہیں کہ شاید ان کے جواب موجود ہونے کے باوجود کبھی نہ دئیے جا سکیں۔جس کی جو مقبولیت اور جس جماعت کا جو گراف تھا وہ ان بلدیاتی انتخابات نے بے نقاب کر دیا ہے۔عمران خان کا دعویٰ تھا کہ حالیہ بلدیاتی انتخابات عوام میں تحریک انصاف کی مقبولیت کو ثابت کر دیں گے ،مگر ایسا نہ ہو سکا۔ یہ تحریک انصاف کے لئے نہایت فکر کا مقام ہے کہ عوام میں اُس کی مقبولیت روز بروز کیوں کم ہو رہی ہے۔ا گرچہ اُسے کے پی کے میں مقبولیت حاصل ہے۔ لیکن اگر صوبے میں اُس کی ’’کارکردگی ‘‘ سوالیہ نشان بنی رہی اور کے پی کے، کے عوام نے اُن سے جو توقعات یا امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ وہ پوری نہ ہوئیں تو عمران خان کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس کا انجام 2018ء کے جنرل الیکشن میں کیا ہو سکتا ہے؟ اگر کے پی کے بھی اُن کے ہاتھ سے نکل گیا تو تحریک انصاف کی سیاست کہاں کھڑی ہو گی؟
حالیہ بلدیاتی الیکشن نے ہر سیاسی جماعت کا ہر ایک پول کھول کے رکھ دیا ہے۔ پنجاب میں ن لیگ کو سبقت حاصل ہے لیکن یہ قبولیت اُس وقت تک برقرار رہ سکتی ہے۔ جب تک پنجاب میں روزگار کی وسیع پیمانے پر فراہمی کے ساتھ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بھی وہ کام نہیں ہو جاتے جو اس صوبے کی ضرورت ہیں۔ پیپلز پارٹی بلاشبہ بدین میں بُری طرح شکست کھانے کے بعد اب بھی سندھ کی بڑی سیاسی جماعت ہے لیکن بدین کی شکست سے اُسے ضرور سبق حاصل کرنا چاہیے کہ ہزیمت کی یہ تاریخ آگے چل کر سندھ کے دوسرے اضلاع میں بھی دہرائی جا سکتی ہے۔ اس لئے پیپلز پارٹی کو عوامی بہبود کے وہ کام کرنے چاہئیں جس کی توقع سندھ کے عوام اُن سے لگائے بیٹھے ہیں۔


خیر پختونخوا میں تحریک انصاف حکومت کر رہی ہے۔ لیکن صرف بیانوں سے حکومتیں نہیں چلتیں۔ لوگ ’’کارکردگی‘‘ چاہتے ہیں۔ ہر وہ کام، جس سے اُن کی زندگیوں میں نکھار آئے اور وہ پُرسکون ہو جائیں۔ یعنی ہر اُس سیاسی جماعت کو، جو حکومت میں ہے۔ اپنا اپنا کام، اپنے اپنے منشور کے مطابق کرنا چاہیے ورنہ تاریخ سبق سکھانا جانتی ہے۔

مزید :

کالم -