350 ارب روپے لگا کر سعودی عرب نے صحرا کے بیچ و بیچ ایسی عالیشان چیز بنادی کہ پوری دنیا کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں

350 ارب روپے لگا کر سعودی عرب نے صحرا کے بیچ و بیچ ایسی عالیشان چیز بنادی کہ ...
350 ارب روپے لگا کر سعودی عرب نے صحرا کے بیچ و بیچ ایسی عالیشان چیز بنادی کہ پوری دنیا کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ریاض (مانیٹرنگ ڈیسک) تیل کی آمدن میں غیر معمولی کمی آنے کے بعد سعودی معیشت سخت مشکلات میں گھری ہوئی ہے اور دنیا یہ سوال پوچھ رہی ہے کہ مملکت کا مستقبل کیا ہوگا۔ ایسے میں سعودی عرب نے اپنے بڑے شہروں سے دور بنجر صحراﺅں میں ایک حیرتناک عجوبہ کھڑا کرکے سب کو بتادیا ہے کہ اس کا مستقبل کیسا ہے اور یہ کس طرح آنے والے وقت میں مزید خوشحالی کی جانب گامزن ہو گا۔
گلف نیوز کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب میں جبیل شہر کے شمال میں 80 کلومیٹر کی دوری پر لق و دق صحرا کے عین درمیان راس الخیر انڈسٹریل سٹی قائم کر دیا گیا ہے۔ گزشتہ 8 سال سے جاری کام اب مکمل ہوچکا ہے اور یہ صنعتی شہر اب افتتاح کے لئے تیار ہے۔ جس جگہ آٹھ سال پہلے صرف ریت ہی ریت تھی وہاں اب 35 ارب ڈالر (تقریباً 35کھرب پاکستانی روپے) کی لاگت سے ایک ایسا صنعتی شہر تعمیر ہوچکا ہے کہ جس کی مثال دنیا میں نہیں مل سکتی۔ یہاں فاسفیٹ معدنیات ریفائن کی جائیں گی، جن سے کھادیں بنائی جائیں گی، جبکہ باکسائیٹ بھی ریفائن ہو گی، جسے ایلومینیم جیسی مفید دھات بنانے کے لئے بنیادی جزو کے طور پر استعمال کی جاتا ہے۔

پاکستان کے وہ مقامات جنہیں دیکھ کر آپ سوئزرلینڈ کی خوبصورتی بھول جائیں گے
سعودی کان کن کمپنی معدن کے سی ای او خالد المدیفر نے غیر ملکی صحافیوں کو راس الخیر انڈسٹریل سٹی کا دورہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہاں آٹھ سال قبل کچھ بھی نہیں تھا، سوائے ریت اور اونٹوں کے، لیکن اب یہاں ایسی معدنیات کی کان کنی کا مرکز قائم ہوچکا ہے جن کی طلب پوری دنیا میں پائی جاتی ہے۔
سعودی عرب کے اس منصوبے کو متنوع معیشت کے ہدف کے حصول کے لئے اہم ترین قدم قرار دیا جارہا ہے۔ سعودی سرزمین فاسفیٹ، باکسائیٹ، تانبے اور یورینیم جیسی دھاتوں سے مالا مال ہے لیکن اس سے پہلے ان دھاتوں کو نکالنے اور صنعتی مقاصد کے لئے استعمال کرنے پر توجہ نہیں دی گئی تھی۔ معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ راس الخیر انڈسٹریل سٹی کی صورت میں اس جانب بہت بڑا قدم اٹھایا گیا ہے، جو مستقبل میں سعودی معیشت کو مستحکم کرنے کی اہم ترین کوششوں میں سے ایک ثابت ہوگا۔

مزید :

عرب دنیا -