رفیق غزنوی کے بارے میں مشہور تھا کہ جب یہ گانا سننے کسی کو ٹھے پر جاتے تھے تو گانے والیوں کو پہلے سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ خود کسی پائے کے گانے والے ہیں۔ اس لیے وہ الٹا ان سے گانے کی فرمائش کرتی تھیں۔ اور جہاں ان کی طبیعت جم جاتی تھی اس کوٹھے کے دروازے اور لوگوں کے لیے بند ہو جاتے تھے۔ اور رفیق غزنوی وہاں سے اتنے دنوں بعد نکلتے تھے جب کہ نائیکہ کو یہ پتہ ہی نہیں ہوتا تھا کہ اس کی بیٹی رفیق غزنوی کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔ مذاق سے دوست کہا کرتے تھے کہ رفیق غزنوی سے کوٹھوں کو بچاؤ یہ تو پوری پوری فیملی کو ساتھ لے جاتا ہے۔ اس سلسلے میں کئی عورتیں ان کی زندگی میں آئیں اور ان سے اولادیں بھی ہوئیں لیکن زیادہ تر لڑکیاں ہی ہوئیں اور جیسے خود خوبصورت تھے اسی طرح وہ بھی بہت خوبصورت تھیں۔ لیکن وہ ان عورتوں سے ہونیوالی بچیوں کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیتے تھے ۔ چونکہ ان عورتوں کا تعلق زیادہ تر کوٹھوں سے ہوتا تھا۔ او ر وہاں پر اولاد ہی کو تصورہوتی ہے اور ماں ہی اولاد کو اپنے پاس رکھتی ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان چیزوں کے کچھ اثرات ہوتے ہیں وہ ان باتوں کا برا نہیں مانتے تھے۔
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 110 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
کراچی میں ان کی آخری بیوی کا نام شاید انور ادھا تھا۔ کچھ عرصہ تو وہ بیوی کے بغیر رہے اس کے بعد ایک کرنل کی بیٹی سے ان کی ملاقات ہوئی۔اس وقت ان کی عمر پچاس برس سے زائد تھی اور وہ لڑکی سترہ اٹھارہ سال کی تھی۔ معلوم ہوا کہ ان کی نئی شادی اس سے ہو گئی ہے ۔ ہم گئے تو دیکھا کہ وہ نہایت خوش گفتار ، باذوق ، زندہ دل اور خوش پوش تھی ۔ وہ رفیق صاحب کا ساتھ دینے والی لڑکی تھی اور اتنی خوشی تھی کہ عمروں کا فرق بھی نہیں لگتا تھا۔ وہ مطمئن بھی نظر آتی تھی۔ کھانا وہ بھی پکاتی ہو گی لیکن جس دن میں وہاں گیا تو اس دن رفیق صاحب نے کھانا اپنے ہاتھ سے پکایا۔ ان کے ہاتھ کی میں نے ایک بار جو نہاری کھائی وہ بہت لذیذ تھی۔ عام طور پر نہاری میں لوگ مرچ مصالحہ زیادہ ڈالتے ہیں لیکن ان کے ہاں مرچ مصالحہ کم ہوتا تھا اس لیے یہ نہاری زیادہ لذت والی تھی اور چیزیں بھی میں نے ان کے ہاں کھائی لیکن بکرے کے پائے کا پلاؤ میں نے پہلی اور آخری بار ان کے ہاں ہی کھایا۔ سب جانتے ہیں کہ پائے پکنے کے بعد اس کا شوربہ انتہائی چپکنے والا ہو جاتا ہے اور اگر شوربہ زیادہ گاڑھا ہو تو انگلیاں آپس میں چپک جاتی ہیں لیکن اس پلاؤ کی خاصیت یہ تھی کہ دانہ دانہ الگ الگ تھا اور کچھ جڑا ہوا نہیں تھا۔ یہ رفیق غزنوی کی ایسی صناعی تھی کہ جیسے وہ بعض راگوں میں ایسے سر استعمال کرتے تھے کہ دو راگ ایک ساتھ ہونے کے باوجود الگ الگ نظر آتے تھے مگر سماں بھی ایک ہوتا تھا اسی طرح یہ پلاؤ تھا۔ اس کے بعد کچھ لوگوں سے سنا کہ وہ بھی ایسا پلاؤ پکا سکتے ہیں لیکن یہ زبانی دعوے ہی ثابت ہوئے۔ میں نے ان کے بعد ایسا پلاؤ کبھی نہیں کھایا۔
رفیق غزنوی کو ایک شوق ریس کا تھا ۔ ریس میں جو بھی جاتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ وہ اس فن پر عبور رکھتا ہے ۔ اور اس زعم میں مارا جاتا ہے ۔ رفیق نے اپنی زندگی کی بہت سی کمائی ریس میں ضائع کی۔ اور دعویٰ یہ تھا کہ وہ اسے بہت سمجھتے ہیں۔ ریس کھیلنے والے اپنی ہاد کو کبھی لوگوں پر ظاہر نہیں کرتے کیونکہ اس میں تضحیک بھی ہوتا ہے اور لوگوں کی باتیں بھی سننی پڑتی ہیں۔ اور کوئی جوئے والا بھی نصیحت سننا پسند نہیں کرتا۔ چنانچہ انہوں نے بہت کچھ ریس میں ہارا۔ آخری وقت میں جب یہ ریڈیو سے ریٹائر ہوئے تو انہیں جو پراویڈنٹ فنڈ ملا وہیہ پورے کا پورا ریس میں ہا ر گئے۔اس سے بیوی کو بھی صدمہ ہوا۔ اور خود بھی ملول ہوئے ۔ اور جو رقم ان کا آخری وقت کا سہارا بن سکتی تھی وہ نہ بن سکی۔ اور انہیں دوبارہ کنٹریکٹ پر کام کرنا پڑا۔ پہلے وہ اپنے آرٹ کے بارے میں اور اپنے آرٹسٹ ہونے کے بارے میں فخر سے جو بات کیا کرتے تھے وہ اب ذہن سے نکل گئی۔ میں نے ایک بار فون کیا تو کہنے لگے کہ شام کو آپ میری طرف ذرا لیٹ آئیے۔ پہلے تو یہ کہا کرتے تھے کہ میں ریکارڈ نگ کے لیے جا رہا ہوں یا کسی کو ریہرسل کروانی ہے لیکن اس دن کہا کہ کام پر جا رہا ہوں اور ان کا لہجہ بہت بجھا ہوا تھا۔ اب رفیق غزنوی کے ان الفاظ سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کتنے بجھ چکے تھے۔
ان کی زندگی میں ایک صدمہ اور تھا اور وہ یہ کہ ان کی ایک چہیتی بیٹی تھی جو بہت خوبصورت تھی اور اس کی شادی ضیا سرحدی سے ہوئی تھی۔ جب یہ ممبئی میں تھے تو ضیا سرحدی بھی وہیں تھے۔ دونوں پٹھان تھے اور دونوں کا تعلق صوبہ سرحد سے تھا۔ ضیا سرحدی intellectuals میں شمار ہوتے تھے اور ان کا کافی نام بھی تھا ۔ اس سطح پر رفیق غزنوی کی بیٹی کی شادی ضیا سرحدی سے ہوئی لیکن بعد میں خدا جانے کیا ہو کہ دونوں کی علیحدگی ہو گئی۔
پارٹیشن کے بعد رفیق صاحب اور ان کی بیٹی یہاں آگئے۔ بعد میں یہاں ضیا صاحب بھی آگئے اور انہوں نے ایک کرسچن خاتون سے شادی کر لی مگر بعد میں ان سے بھی علیحدگی ہو گئی۔ خیر ایک دن میں کراچی میں رفیق غزنوی صاحب کے گھر میں گیا تو دیکھا کہ ایک خاتون وہاں بیٹھی ہیں جن کی آنکھوں پر عینک تھی اور سر کے بال بالکل سفید تھے۔ رفیق صاحب مجھے اپنے ساتھ وہاں سے گزار کر اپنے کمرے میں لے گئے۔ میں نے پوچھا کہ یہ خاتون کون ہیں تو وہ بڑے دکھ سے کہنے لگے کہ اب تو یہ میری ماں ہیں۔ کبھی یہ میری بیٹی ہوا کرتی تھی اور وہ جو یہاں کے بہت بڑے دانشور ہیں حضرت ضیا سرحدی یہ ان کی بیوی ہیں۔ ان کے یہ جملے اور دکھ میں ڈوبے ہوئے تھے۔ چنانچہ رفیق صاحب کی زندگی میں جو دکھ آئے انہوں نے انہیں توڑ کے رکھ دیا اور وہ اپنے جسم کو گھسیٹتے رہے ۔ بظاہر مرتے دم تک تندمند تھے اور چہرے پر بشاشت تھی اور اپنی عمر سے پندرہ سال کم نظر آتے تھے لیکن اندر سے ٹوٹ چکے تھے اور بالآخر ایک دن ان کا ہارٹ فیل ہو گیا اور اس دنیا سے رخصت ہوئے۔
(جاری ہے )