منافقت

اصل مسئلہ کیا ہے، دین اصل مسئلہ ہے یا دُنیا اصل مسئلہ ہے؟بنیادی طور پر نہ دین مسئلہ ہے نا دُنیا کوئی مسئلہ ہے، مسئلہ صرف مسلمان کی سمجھ کا ہے، مسلمان دُنیا کی طرح دین کو بھی اپنی پسند کا بنانا چاہتا ہے، مسلمان کے نزدیک ایمان اور عمل دو الگ الگ چیزیں ہیں، ہمارے جیسا سیدھا سادہ مسلمان یہ بات بالکل بھول جاتا ہے، اعمال صالح دراصل ایمان کا حصہ ہوتے ہیں،ایمان اور اعمال صالح دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں، مَیں ایمان کے ساتھ ساتھ جھوٹا ظالم اور منافق نہیں رہ سکتا، کیونکہ جھوٹے ظالم اور منافق پر اللہ نے لعنت کی ہے۔
مجھے معلوم ہونا چاہئے کہ ایمان اور اعمال صالح لازم وملزوم ہیں، اللہ چاہتا ہے کہ ہم پورے کے پورے دین میں داخل ہوں، دین میں سوائے اللہ کے کسی کی مرضی نہیں چل سکتی، ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنی مرضی کا دین چاہ رہے ہیں، ایمان دو حصوں پر مشتمل ہے، زبان سے اقرار اور دِل سے تصدیق، اعمال صالح، دِل سے تصدیق کا اظہارِ ہوتا ہے، اِس لحاظ سے ہمارا ایمان مکمل نہیں ہے،کیونکہ ہماری اکثریت بے عمل ہے، منافقت دین اور دُنیا میں یہی فرق ہے کہ دُنیا میں منافقت چل سکتی ہے،لیکن دین میں منافقت نہیں چل سکتی، اس کو چلانے سے دین مکمل نہیں ہوتا،صرف دھوکہ دیا جا سکتا ہے،جس طرح بعض معزز حضرات دین کا نام لے کر اپنی دُنیا داری چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
منافقت آدمی کی اس مہارت کو کہتے ہیں،جس کے تحت وہ اپنی شخصیت کے مثبت پہلوؤں کو کامیابی کے ساتھ ایک لمبے عرصے تک لوگوں میں اُجاگر رکھے، اس کے ساتھ ساتھ اپنی شخصیت کے منفی پہلوؤں کو اُسی کامیابی کے ساتھ لمبے عرصے تک لوگوں کی نظروں سے اُوجھل رہنے دے،یعنی ہو کچھ اور لگے کچھ اور۔۔۔ سر سے پاؤں تک دھوکہ ہی دھوکہ ہو،لیکن مشہور سچا اور ایماندار ہو، نمازی ہو۔ چھٹا ہوا جھوٹا اور منافق رہ کر بھی صداقت و اخلاص کا مجسمہ مشہور ہو،ایسے لوگوں سے ہم واقف ہیں،اِس لئے کہ ایسے بہت سارے لوگ ہمارے اردگرد موجود ہوتے ہیں، اِس میں بھی کوئی اچنبھے کی بات نہیں، کہ ہم خود بھی ایسے لوگوں میں شامل ہوں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ صرف اصلی اور پکا جھوٹا ہی جھوٹ نہیں بولتا، بلکہ معاشرے میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں، جو کبھی کبھی ضرورتاً جھوٹ بول لیتے ہیں، کسی کا دِل رکھنے کے لئے جھوٹ بولتے ہیں، پھر بھی سچے شمار ہوتے ہیں، جھوٹ کی کہیں بھی چھوٹ نہیں ہے، اللہ کے کسی حکم کے اندر سوائے اس رعایت کے جو اللہ نے خود دے رکھی ہے، کوئی چھوٹ نہیں ہے، مثلاً سفر کے دوران نماز کسر کی جا سکتی ہے،مالی حالات اجازت نہیں دیتے تو حج بیت اللہ ساقط ہو سکتا ہے، بیماری میں روزہ لازم نہیں رہتا،لیکن جھوٹ کسی بھی صورت میں نہیں بولا جا سکتا، ظلم کسی بھی حالت میں روا نہیں اور منافقت کبھی جائز نہیں ہو سکتی،پھر ایسے کو کہاں اور کس مقام پر رکھا جائے اور پرکھا جائے، جو اپنے جھوٹ، ظلم اور منافقت کو جان بوجھ کر اپنے کردار کے ذریعے چھپاتا پھرے، یہ جانتے ہوئے کہ اگر وہ اپنی دو آنکھوں سے دوسرے لوگوں کو ٹھیک ٹھیک نشانے پر دیکھ سکتا ہے تو اُسے دیکھنے والی لاتعداد آنکھیں کیا اُسے اس کی تمام حرکات و سکنات اور باریکیوں کے ساتھ آگے پیچھے سے نہیں دیکھ سکتیں۔
اس وقت کیا ہو رہا ہے،کیا ایسا نہیں ہو رہا کہ جو لوگ کئی دہائیوں سے بالکل مطمئن چلے آ رہے تھے کہ اُنہیں پہچانا نہیں جا سکتا، روزانہ بے نقاب ہو رہے ہیں، آج کا میڈیا خاص طور پر سوشل میڈیا جس تیزی اور بے باک نگاہوں سے لوگوں کے اعمال سامنے لا رہا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے تک اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا، کتنے جعلی پیر اور عامل بابے پکڑے جا چکے ہیں، کتنے جعلی سیاست دان مسترد کئے جا چکے ہیں، لاتعداد اَن پڑھ،جاہل اور نوسر باز ڈاکٹر دندان ساز اور تھڑوں پر بیٹھ کر پوشیدہ بیماریوں کا علاج کرنے والے جگہ جگہ پکڑے جا رہے ہیں،منرل واٹر کے نام پر گدلا اور جراثیم زدہ پانی سرعام فروخت کرنے والے گرفتار ہو چکے ہیں،ایسے بدمعاش بھی ہیں، جو شہر میں پانی کی سرکاری سپلائی روک کر اور سرکاری پائپوں پر اپنی اپنی موٹریں لگا کر پانی بھر کر عوام کو فروخت کرنے والے پکڑے گئے ہیں،بلکہ ابھی تک لاہور میں واسا کے ٹیوب ویلوں کا پانی بھر بھر لوگوں کو متواتر فروخت کیا جا رہا ہے۔ بڑے بڑے عزت دار آج کل اپنی ناجائز تجاوزات قبضہ شدہ زمینوں کے باعث بے نقاب ہو رہے ہیں۔
منافقت آدمی کے اندر کے کھوکھلے پن کی دلیل بن جاتی ہے،منافقت ہمارے اندر اکثریت کے دِلوں میں اپنی جگہ بنا چکی ہے کہ پورا معاشرہ،بلکہ سارا نظام ہی منافقت کا شکار ہو چکا ہے،جو خود کو اسلام کے نمائندے کے طور پر پیش کرتے ہیں؟سیاست میں منافقت ان کی مجبوری بن جاتی ہے اور جو کوا ہنس کی چال چلے، اپنی چال بھی بھول جاتا ہے، زندگی میں منافقت ہر شعبے میں اپنا ایک مقام بنا چکی ہے، شاید ہی معاشرے میں کوئی شعبہ ہو،جس میں پاکستانی اس موذی مرض منافقت سے بچے ہوں ورنہ 70 برسوں سے نسل در نسل سیاست کی طرح منافقت میں بھی آگے نکلنے کی کوشش میں ہیں، ہمارے سامنے ہر سطح اور ہر مقام پر دن رات منافق آنکھوں والے معزز لوگ دندناتے پھرتے ہیں،عوام پر اپنا احسان جتاتے ہیں اور ہم منافقت کے خلاف اندر سے مضبوط ایمان رکھنے کے باوجود ان لوگوں کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں،ہم شعوری سطح پر نوکر شاہی کو اپنی تمام مصیبتوں، پریشانیوں، بداعمالیوں اور طرح طرح کے ظلم و ستم کی کارستانیوں کی وجہ سمجھتے ہیں۔
تھانہ کچہریوں اور پٹواریوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ اُستاد ،ڈاکٹر، انجینئر اور محلے کا امام بھی اکثر اوقات ان قباحتوں کا شکار ہو جاتا ہے۔
کیا ینگ ڈاکٹروں اور وکلا کی آئے دن کی غنڈہ گردیوں سے سب واقف نہیں ہیں، کیا مرتی ہوئی بیمار مخلوق اور عدالتوں میں روزانہ ذلیل و خوار ہونے والوں کو ہم نہیں جانتے، کیا ہم نے دین کو چھوڑ کرجو دُنیا کی سلامتی کے لئے آیا تھا، دنیاکو دین بنا لیا ہے یا منافقت سے کام لے رہے ہیں۔