اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 54

حضرت سفیان ثوریؒ کے عہد میں ایک مرتبہ حالت نماز میں خلیفہ وقت نے اپنے داڑھی پر ہاتھ پھیرلیا۔ اس پر حضرت سفیان ثوریؒ نے فرمایا ’’ایسی نماز قطعی بے حقیقت ہے اور قیامت کے دن تیری نماز گیند کی طرح منہ پر مار دی جائے گی۔‘‘
خلیفہ نے جھڑک کر کہا ’’خاموش رہو۔‘‘
آپؒ نے فرمایا ’’حق گوئی میں خموشی کیسی؟‘‘
یہ سنتے ہی خلیفہ نے غضب ناک ہوکر حکم دیا ’’اس کو پھانسی دے دو۔‘‘
دوسرے دن ٹھیک پھانسی کے وقت آپ ؒ ایک بزرگ حضرت سفیان بن عینیہؒ کے زانو پر سر رکھے پیر پھیلا کر آنکھیں بند کئے ہوئے تھے۔ لوگوں نے آپ سے کہا ’’پھانسی کا وقت قریب ہے۔‘‘
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 53 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
آپؒ نے فرمایا ’’مجھے اس کا ذرہ برابر خوف نہیں لیکن حق گوئی سے کبھی باز نہ آؤں گا ۔
پھر اللہ تعالیٰ سے عرض کیا۔’’اے اللہ! خلیفہ مجھے بے قصور سزا دینا چاہتا ہے اس لئے اس کو بدلہ ملنا چاہیے‘‘ اس دعا کے ساتھ ہی ایک دھماکہ کے ساتھ زمین شق ہوئی اور خلیفہ وزراء سمیت اس میں دھنس گیا۔
***
ابن شریحؒ سے لوگوں نے سوال کیا ’’کیا جنید بغدادیؒ کا کلام ان کے علم کے مطابق ہوتا ہے۔‘‘
انہوں نے جواب دیا ’’یہ تو مَیں نہیں جانتا۔ البتہ ان کی گفتگو ایسی ضرور ہوتی ہے جیسے خدا تعالیٰ ان کی زبان سے کلام کررہا ہو اور میرے قول کی یہ دلیل ہے کہ جب جنید توحید کو بیان کرتے ہیں تو ایسا جدیدمضمون ہوتا ہے کہ ہر شخص اس کو سمجھنے سے قاصر ہے۔‘‘
***
غسل کے دوران حضرت ابوالحسن نوریؒ کے کوئی کپڑے اٹھا کر چلتا بنا تو اس کے دونوں ہاتھ بیکار ہوگئے اور جب وہ کپڑے واپس لے آیا تو آپؒ نے دعا کی ’’اے اللہ! اس نے میرے کپڑے واپس کردئیے تو بھی اس کے ہاتھوں کی توانائی لوٹادے۔‘‘ چنانچہ وہ اسی وقت ٹھیک ہوگیا۔ایک دفعہ کسی نے آپ سے سوال کیا ’’اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے۔‘‘
آپؒ نے فرمایا ’’جب میں غسل کرتا ہوں تو وہ میرے کپڑوں کی نگرانی کرتا ہے۔‘‘
لوگوں نے پوچھا ’’یہ کیسے؟‘‘
آپ نے فرمایا ’’ایک دن مَیں حمام میں تھا، تو کوئی میرے کپڑے اٹھا کر چل دیا اور جب مَیں نے اللہ تعالیٰ سے اپنے کپڑے طلب کئے تو وہ شخص واپس آکر معذرت کے ساتھ میرے کپڑے دے گیا۔‘‘
***
حضرت بایزید بسطامیؒ نے ایک مرتبہ لال رنگ کا سیب ہاتھ میں لے کر فرمایا ’’یہ تو بہت ہی لطیف ہے۔‘‘
چنانچہ اسی وقت غیب سے ندا آئی ’’کہ ہمار انام سیب کے لئے استعمال کرتے ہوئے حیا نہیں آئی اور اس جرم میں اللہ تعالیٰ نے چالیس دن کے لئے اپنی یاد آپ کے دل سے نکال دی۔
لیکن اس کے بعد حضرت بایزیدؒ نے قسم کھالی کہ اب کبھی بسطان کا پھل نہیں کھاؤں گا۔‘‘
***
حضرت عبداللہ بن مبارکؒ کا معمول تھا کہ ایک سال حج کرتے، دوسرے سال شریک جہاد رہتے اور تیسرے سال تجارت کرکے جو کچھ بھی نفع حاصل کرتے وہ سب مستحقین میں تقسیم فرمادیتے اور فقراء کو کھجوریں کھلاتے تو گٹھلیاں شمار کرتے جاتے اور جو شخص جس قدر کھجوریں کھاتا، اسی حساب سے ہر شخص کو اتنے ہی درہم دے دیتے۔
***
ایک پادری عبادات و مجاہدات کرتے کرتے بہت کمزور ہوگیا تھا اور جب حضرت عبداللہ بن مبارکؒ نے دریافت کیا کہ خدا کا راستہ کیسا ہے؟اس نے جواب دیا ’’تم عارف ہونے کی وجہ سے یقیناًخدا اور اس کی راہوں سے ضرور واقف ہوگے۔ میں نے تو آج تک اللہ ہی کو نہیں پہچانا پھر بھلا اس کا راستہ کیسے بتاسکتا ہوں۔ مَیں تو پہچانے بغیر ہی اس کی عبادت کرتے کرتے اس قدر ضعیف ہوگیا ہوں لیکن تم نہ جانے کس قسم کے عارف ہوکہ خدا کا خوف بھی نہیں کرتے‘‘ یہ سن کر آپ کو ایسی عبرت ہوئی کہ ہر یوم آپ کے خوف خداوندی میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔
***
کسی شخص نے اشرفیوں کی دو تھیلیاں حضرت سفیان ثوریؒ کی خدمت میں ارسال کرتے ہوئے یہ پیغام بھیجا کہ چونکہ آپ میرے والد کے دوست ہیں اور اب وہ فوت ہوچکے ہیں لیکن ان کی پاکیزہ کمائی میں سے یہ تھیلیاں ارسال خدمت ہیں۔ آپ ان کو اپنے اخراجات کے لیے قبول فرمالیں۔
لیکن آپ نے وہ تھیلیاں واپس بھیجتے ہوئے یہ پیغام بھیجا ’’تمہارے والد سے میرے تعلقات صرف دین کے لیے تھے، نہ کہ دنیا کے لیے۔‘‘
اس واقعہ کی اطلاع جب حضرت سفیان ثوریؒ کے صاحب زادے کو ہوئی تو انہوں نے عرض کیا ’’میں نادار اور عیالدار ہوں۔ا گر یہ رقم آپ مجھے دے دیتے تو میرے بہت سے کام نکل سکتے تھے۔‘‘
اس پر آپ نے فرمایا ’’میں دینی تعلقات کو دنیاوی معاوضہ میں فروخت نہیں کرسکتا البتہ اگر وہ شخص خود تم کو دے دے تو تم خرچ کرسکتے ہو۔‘‘(جاری ہے )
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 55 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں