قانون سازی اٹارنی جنر ل کا کام کب سے ہو گیا؟ سپریم کورٹ
اسلام آباد(سٹاف رپورٹر) حکومت نے بتایا ہے کہ حراستی مراکز پر نیا قانون بنایا جا رہا ہے اور ملک مخالف سرگرمی پر غیر معینہ مدت کیلئے زیر حراست رکھا جا سکتا ہے، حراستی مراکز میں ایک ہزار کے قریب لوگ ہیں اور خیبر پختونخوا میں اس وقت 2011ء کا ایکٹ نافذ ہے،حراستی مراکز پر نیا قانون بنایا جا رہا ہے۔ پیر کو سپریم کورٹ میں فاٹا،پاٹا ایکٹ اور حراستی مراکز سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کے سامنے سوال صرف حراستی مراکز کی قانونی حیثیت کا ہے، ایک طرف شہری کے وقار دوسری طرف ریاست کی بقا کا سوال ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ حراستی مراکز پر عدالت کو ویڈیو دکھانا چاہتا ہوں، فاٹا پاٹا میں دہشتگرد، کالعدم تنظیمیں اور غیر ریاستی عناصر موجود رہے، حراستی مراکز سمیت دیگر نکات پر نیا قانون بنایا جا رہا ہے جو تین سے چار ماہ میں نافذ ہو جائے گا۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ چاہتے ہیں عدالت چار ماہ آئین معطل کر دے؟۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ عدالت سے صرف نئے قانون کی نفاذ تک کی مہلت مانگ رہا ہوں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ صدر نے قانون فاٹا میں رائج کیا تھا جو اب ختم ہوچکا، فاٹا ختم ہو چکا تو اس میں رائج قانون کیسے برقرار ہے؟۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ فاٹا میں رائج قانون اب صوبائی قوانین بن چکے، جو نیا قانون ڈرافٹ کر رہا ہوں اس میں سب کچھ شامل کیا گیا ہے۔ جسٹس فائز عیسی نے کہا کہ اٹارنی جنرل کا کام قانون بنانا کب سے ہوگیا؟، قانون بنانے کیلئے وزارت قانون موجود ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ حراستی مراکز میں کسی کو تین ماہ رک رکھا جا سکتا ہے۔ اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ملک کیخلاف سرگرمیوں پر غیر معینہ مدت کیلئے حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔جسٹس فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ اس طرح تو کسی کوبھی ملک مخالف سرگرمیوں کا الزام لگا کر غیر معینہ مدت تک حراست میں رکھا جائے گا، نئے قانون میں کسی کو حراست میں رکھنے پر نظرثانی کا نکتہ بھی نکال دیا گیا ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال کے استفسار پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ حراستی مراکز میں ایک ہزار کے قریب لوگ ہیں اور خیبر پختون خوا میں اس وقت 2011 کا ایکٹ نافذ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حراست پر نظرثانی نہ ہونا 2011ء کے قانون میں سقم ہے۔عدالت نے کیس کی مزیدسماعت (آج) منگل تک ملتوی کردی۔
سپریم کورٹ
اسلام آباد(سٹاف رپورٹر) سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت کے حالات سنگین ہو چکے ہیں، ہمیں تو لگ رہا ہے کہ صوبائی حکومت دیوالیہ ہو جائے گی،جب کام نہیں کرتے تو تنخواہ کیوں مانگتے ہیں؟۔سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں فاضل بینچ نے محکمہ زراعت خیبرپختونخوا کے ملازم احمد سعید کی تنخواہ کے حصول کے لیے دائر درخواست پر سماعت کی۔ دوران سماعت جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ کیا جس وقت کی تنخواہ کا آپ تقاضا کر رہے ہیں اس وقت آپ نے کام کیا ہے؟، جس پر احمد سعید کے وکیل نے کہا کہ کچھ عرصہ کیا ہے اور کچھ عرصہ نہیں لیکن ہائی کورٹ نے واضح احکامات ہیں کہ تنخواہ دی جائے۔جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ جب کام نہیں کرتے تو تنخواہ کیوں مانگتے ہیں، معلوم نہیں کہ پشاور ہائی کورٹ کیا کررہی ہے، ہمیں ان کے احکامات کی سمجھ نہیں آرہی۔ عدالت نے احمد سعید کی درخواست خارج کردی۔