ناروے میں قرآن کی بے حرمتی اور مسلمان
اس کرۂ ارض پر بسنے والے انسان مختلف مذاہب اور تہذیبوں میں تقسیم ہیں۔ ان میں جو چیز مشترک ہے وہ ”انسانیت یا آدم زاد“یعنی سب انسان ایک آدم کی اولاد سے ہیں۔ مذاہب کی اپنی ایک تاریخ ہے، جس کے مطابق مختلف زمانوں میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی رہنمائی کے لئے اپنے ہی بندوں سے نبی بھیجتا رہا،جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو صحیح اور غلط کا فرق واضح کیا اور اس دنیا کو آخرت کی کھیتی قرار دیا ہے، یعنی اس دنیا میں جو فصل بوئیں گے،اسی کا پھل آخرت میں کاٹنا ہوگا۔ بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کی طرف سے بھیجے جانے والے آخری نبی ہیں اور اللہ نے اپنا دین مکمل طور پر بذریعہ قرآن پاک دنیا کو بھیج دیا۔
ہم تمام انبیائے کرام پر اور ان کی کتب پر ایمان رکھتے ہیں اور ان تمام کے پیغامات کو نئی اور آخری شکل میں قرآن پاک میں مرتب کر دیا گیا ہے۔ اس وقت اس کرۂ ارض پر بسنے والے مسلمانوں کی تعداد ایک ارب 80 کروڑ سے زائد ہے، جو کل انسانوں کا ایک چوتھائی بنتا ہے، جبکہ عیسائی مذہب کو ماننے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، جو دو ارب چالیس کروڑ کے لگ بھگ ہیں، جو 34 فیصد بنتے ہیں۔ تیسرا نمبر ان لوگوں کا ہے جو کسی بھی مذہب کو نہیں مانتے اور یہ پوری دنیا کا 16 فیصد سے زائد ہیں۔ اس کے بعد ہندوؤں کا نمبر ہے، جن کی تعداد ایک ارب 20 کروڑ سے زائد ہے۔ ہندوؤں کے بعد بدھ مت ہیں،پھر یہودی اور دوسرے مختلف مذاہب ہیں۔ پہلے وقتوں میں ان مذاہب کے درمیان بہت زیادہ خون ریزی ہوئی، اس سے تاریخ بھری پڑی ہے، لیکن ماضی قریب میں سب سے زیادہ معتوب مسلمان ہیں، بالخصوص مغرب، اسرائیل، امریکہ اور ہندوستان مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ان ممالک کا الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا اسلام اور مسلمانوں کو ہر وقت ہدف تنقید بنائے رکھتا ہے۔ ن
ائن الیون کے واقعہ کے بعد دنیا ہی تبدیل ہو گئی،انٹرنیشنل ایئرپورٹس پر سختیاں ہو گئی ہیں، مسلمانوں پر ویزا پابندیوں سے زمین تنگ کر دی گئی ہے اور اسلام کو ایک دہشت گرد مذہب اور مسلمانوں کو انتشار پسند قوم کے طور پر مشہور کر دیا گیا ہے، حالانکہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں حصہ لینے والے مسلمانوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے،جبکہ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ کئی ریاستوں نے ریاستی دہشت گردی سے مسلمانوں کا جینا حرام کر رکھا ہے اور باقی دنیا نے اس پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ فلسطین پر غیر قانونی قبضے کے بعد یہودیوں نے فلسطینی مسلمانوں پر عرصہء حیات تنگ کر رکھا ہے۔ ہندوستان نے کشمیر پر ناجائز قبضہ کر کے کشمیری مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے، جو ہنوز جاری ہیں۔ اُدھر یوگوسلاویہ میں عیسائیوں نے مسلمانوں سے ان کا حق آزادی سلب کر کے ان کی نسل کشی کی، جسے بالآخر اقوام متحدہ کی مداخلت پر ختم کیا گیا۔ امریکہ کا جب دل چاہتا ہے۔ دہشت گردی کا بہانہ بنا کر عراق،افغانستان، لیبیا، سوڈان اور شام پر چڑھ دوڑتا ہے۔ مغرب کا میڈیا آئے روز اسلام مخالف مواد چھاپ کر اور نبی آخر الزمانؐ اور قرآن پاک کی بے حرمتی کی مذموم کوششوں سے مسلمانوں کی دل آزاری کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ابھی حال ہی میں ناروے کے جنوبی شہر Kristiansand میں قرآن پاک کو جلانے کی مذموم کوشش کی گئی، جس پر پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمان مضطرب ہیں، لیکن حسب روایت جذباتی نعروں کے سوا کچھ کر نہیں سکتے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ میرے خیال میں اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلم ممالک کی حکومتوں کی اکثریت منتخب نہیں ہے اور وہ سب مغرب کے مرہون منت اور ذہنی غلام ہیں، اس لئے ان کی حمیت مر چکی ہے۔
ترکی اور پاکستان کے سوا کسی ملک نے نارویجین حکومت کے سامنے باقاعدہ کوئی احتجاج تک ریکارڈ نہیں کروایا۔ سعودی عرب سمیت تمام عرب ممالک تو پہلے ہی سب کچھ تسلیم کر چکے ہیں، لہٰذا ناپاک خاکوں کا معاملہ ہو یا قرآن پاک کی بے حرمتی کا،وہ کوئی نوٹس ہی نہیں لیتے، لیکن ہم پاکستانی عوام اپنی کم علمی کی وجہ سے اصلیت سے واقف ہی نہیں ہوتے، بس جذباتی بڑھکوں تک محدود رہتے ہیں اور ہماری حکومت اپنے اللے تللوں میں مصروف رہتی ہے۔ عوام ویسے ہی دو وقت کی روٹی کی فکر میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ جب تک تمام مسلم ممالک مل کر ان مذموم کوششوں کے سدباب کے لئے کوئی ٹھوس عملی اقدامات نہیں کرتے،اس وقت تک یہ سب کچھ ہوتا رہے گا۔ جو لوگ ٹیلی نار کے بائیکاٹ کی بات کر رہے ہیں،ان سے عرض ہے کہ اس سے حکومت ناروے کو کوئی فرق پڑے گا، نہ اس ملعون کو،جس نے یہ حرکت کی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ بائیکاٹ کرنے والوں کی تعداد درجنوں سے زیادہ نہیں ہوگی، دوسری بات یہ اپنے ہی ملک سے سرمایہ کاری ختم کرنے کے مترادف ہے۔
پہلے ہی دنیا کے سرمایہ دار پاکستان کا رخ نہیں کرتے۔ ویسے بھی ناروے بطور ریاست مسلمانوں سے بہت اچھا سلوک کر رہا ہے۔ ملک کے اندر مذہبی رواداری اور ہر طرح کی مذہبی آزادی ہے۔ مساجد کو ناروے حکومت ممبران کی تعداد کے حساب سے سالانہ مالی مدد دیتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام مسلم ممالک آپس میں دوستانہ ماحول پیدا کریں، اپنے وسائل کو مشترکہ طور پر بروئے کار لائیں، یورپی یونین یا شینگن کی طرز کا ایک اتحاد قائم کریں، اور مذہبی فرقہ پرستیوں سے بالاتر ہوکر اپنے دین کے معاملات کو باہمی طور پر اٹھائیں، تاکہ دنیا پر اثر بھی ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے ملکوں سے مذہبی انتہا پسندی اور تنگ نظری کے خاتمے کے لئے بھی ٹھوس اقدامات اٹھائیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ پوری دنیا میں لوگ مسلمانوں ہی کے کیوں خلاف ہیں؟