“شہباز تیری پرواز “
لندن میں اتوار24 نومبر کو میاں شہباز شریف صاحب سے خصوصی ملاقات ہوئی اور میں نے میاں نواز شریف صاحب کی صحت کے بارے میں دریافت کیا اور مزاج پرسی کی اوراپنی نیک تمناؤں کااظہار بھی کیا۔ ایک لیڈر جب پوری قوم کی راہنمائی کررہا ہوتاہے تو ہزار تکلیفوں کے باوجود چہرے پر بلا کا سمندری سکوت طاری رکھتا ہے۔ قوم کی نمائندگی کے لئے اعصابی جنگ اسکی نس نس میں بس جاتی ہے،وہ بیماری کے ہاتھوں ضرور گرتا ہے لیکن تاریخ کے ہاتھوں کبھی مرنا نہیں چاہتا اور یہی اسکا حاصل وصول ہوتا ہے۔
میاں شہباز صاحب اپنے بھائی کی صحت کے لئے فکر مند تھے۔آج کل تو حکمرانوں سے والدین بھی محفوظ نہیں،خدائی دعویٰ اور اس طرح کی زبان درازی قومی صحت کے لئے اچھی نہیں۔ سابق وزیراعظم نواز شریف ضمانت پر ہیں اور اپنا علاج اندرون وبیرون ملک کروانے کے مجاز ہیں۔جب تک ضمانت کی شرائط پر عمل درآمد ہورہا ہےاُن کے ضمانتی عدالت کو مطمئن کر رہے ہیں، یہ بحث ہی فضول ہے کہ وزیراعظم پاکستان کی تشفی کے لئے سابق وزیراعظم لنگڑا کر چلیں۔ اگر حکومت کو کوئی مسلہ ہو تو وہ عدالت سے رجوع کرے۔ برطانیہ میں سخت پرائیویسی قانون نافذ العمل ہیں ،کوئی ڈاکٹر علاج ، مریض اور اسکے ریکارڈ کی بابت بلا اِجازت میڈیا میں بیان بازی نہیں کرسکتا۔ ویسے بھی اَب ریاست کو سویلین وزیرِاعظموں سے مزیدکیا چاہیے؟؟ تازہ خبر یہی ہے کہ حکومت عدالت سے مشرف کیس کا فیصلہ موخر کرنے کے لئے دوڈ دھوپ میں مصروف ہے،ظاہر ہے باقیات جب حکومت میں ہو تو کچھ شرم کچھ حیاء تو ہوتی ہی ہے۔
پاکستان پر بات کرتے ہوئے اُنہوں نے سنجیدہ انداز میں اپنا موقف پیش کیا ،ملک اقتصادی طور پر سنبھالا نہیں جارہا اور چین کے بارے میں غیر سنجیدہ رویہ ملک کے مفاد میں نہیں،جب کوئی پاس نہ آرہا تھا چین نے سی پیک اور توانائی کے منصوبوں ، انفراسٹرکچر اور گوادر میں جاری ترقیاتی منصوبوں میں بے پناہ تعاون کیا ۔ چین مشکل وقت میں کام آنے والا دیرینہ ساتھی ہے لہذا احتیاط لازم ہے۔ میرے پوچھنے پر کہ کیا مسلم لیگ نواز ملک کو منجدھار سے نکالنے کے لئے تیار ہے تو انہوں نے بر ملا زور دیکر کہا کہ فریش مینڈیٹ ہی تمام مسائل کا حل ہے تاکہ آنے والا حکمران عوامی طاقت کے بل بوتے پر فیصلے کرنے کا اختیار رکھتا ہو۔ واپسی کے سوال پر اُنہوں نے کہا کہ بھائی کی صحت اولین ترجیح ہے،سیاست کے لئے وقت پڑا ہے ۔ دوبارہ جلد ملاقات کی یقین دہانی اور اعادے کے ساتھ اجازت چاہی ۔
خلاصہ احوال یہ ہے کہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ شہباز شریف ہر جگہ پہنچتا تھا،لڑتا تھا،مرتا تھا،نظام کی پچیدگیوں کو سمجھتے ہوئے اصلاحات کی بات بھی کرتا تھا۔ سفارش سے نفرت ,میرٹ کی بات کرتا تھا، اپنے افسران کو کارکردگی کے کٹہرے میں کھڑا کرتا تھا،اسکے ڈپٹی کمشنر فعال اور پولیس افسران تازہ دم تھے’لگڑ بگڑ‘ کا خادم اعلی سے کوئی مقابلہ نہیں اور تب ہی وہ ہر موقع پر ،ایکشن ،کارکردگی اور اپنے رویوں سے یاد بھی آتا ہے۔آج کل ملک اور ہی طرح کی بحث میں الجھا ہوا ہے۔ پالیسی کی سطح پر دیر بدیر یہ طے کرنا ضروری ہے تاکہ ایسے ملکی سلامتی کے معاملات پر نظم و ضبط برقرار رہے ۔ حساس عہدوں پر ایکسٹینشن ایک حساس مسلہ ہے جسکے ادارہ ،ملک اور ریاست پر گہرے مضمرات ہوتے ہیں ۔ ادارے نظم و ضبط ،جاری اصلاحات اور کارکردگی سے جانےپہچانے جاتے ہیں کیونکہ شخصیات نہیں ادارے اہم ہوتے ہیں۔
ایک دفعہ تو مجھے شرم ہی آگئی جب کسی نے مجھ سے پوچھا کہ یہ پنشن کے بعد ملک میں رہنا ملکی سلامتی کے لئے ضروری کیوں نہیں سمجھتے؟ ان کو ملک سے اتنی ہی محبت ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ہونی چاہیے جتنی محبت دوران سروس یا ایکسٹینشن لیتے وقت ہوتی ہے۔ ریاست اورادارے کو اس پر ملکی سلامتی کے تناظر میں واضح قانون سازی کرنا چاہیے تاکہ ملک سے باہر ملکی راز محفوظ رہیں اور جگ ہنسائی نہ ہو۔ جنرل کیانی کی ایکسٹینشن کا آڈٹ کرکے متعلقہ ادارے کو دیکھنا چاہیے کہ ملک نے کیا کھویا کیا پایا؟؟۔ وہی آڈٹ رپورٹ ایک جامع سٹڈی ہوگی کہ ایکسٹینشن کے ملکی معاملات پر کیا اثرات ہوتے ہیں؟ جنگ ہمارے اوپر سے گزر گئی ہے،ملک کا استحکام عزیز ہے۔اگرراحیل شریف کو ایکسٹینشن نہیں ملی تو اسکا مطلب یہی ہے کہ کوئی شخص ادارےاور ملک کے لئے ناگزیر نہیں۔ملک کے لئے حکومت کسی کی بھی خدمات بعد اَزریٹائرمنٹ استعمال کرسکتی ہے۔آج ایکسٹینشن دینے والا کل ایکسٹینشن لینے والے کی قطار میں ہوگا کیونکہ اسکا مطلب اس فیصلے کے ساتھ نتھی ہوگا۔اگر ثاقب نثار صاحب ریٹائر نہ ہوتے توہم اُن کے دور کا عوامی تاریخی آڈٹ اور اگلے جج سے موازنہ کبھی نہ کرپاتے۔ شکر ہے کہ جوڈیشری میں یہ روایت جڑ نہیں پکڑ رہی وگرنہ انصاف کا بیڑہ غرق ہی ہوجاتا۔عدالتیں بھی ایسے معاملات کو دیکھ رہی ہیں لیکن یہ کام حکومت اور پارلیمان کے کرنے کے ہیں اور اِنہیں اپنا کام بھرپور کرنا چاہیے،اپنا کام دوسروں پر چھوڑنا کاہلی اور غیر ذمہ دارانہ رویے کی نشانی ہے۔ ارشد ملک کے اعترافی ویڈیو کے بعد اس نظام زَر کو ایک ضمانتی بانڈ دینے کی ضرورت ہے کہ ایسا انتقامی احتساب دوبارہ نہیں ہوگا اور لوگوں کو ایسا انصاف ملے گا جو ہوتا ہوا نظر بھی آئےگا اور جو بے لاگ،یکساں اورغیر متنازعہ ہوگا۔ ایسا ہوگیا تو بانڈ، زَرِ ضمانت اور کسی بھی ملزم یا مجرم سے مچلکے بھروانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔اللہ کرے وہ دن جلد آئے۔ آمین۔
حکومت کشمیر پالیسی اگر کنسڑٹ کرواکرتشکیل دے گی تو یہ ہزاروں شہیدوں کے لہو سے رو گردانی ہوگی اور یہ حکومت کے سوچنے کی باتیں ہیں ۔ پنجاب حکومت نے ایسے فیصلے کو واپس لیکر عقلمندی کا مظاہرہ کیا ہے ۔عالمی خاموشی اور بے حسی کشمیریوں کے ساتھ ایک دائمی ظلم کی داستان لکھ رہی ہے۔ پاکستان ابھی بھی ایک دائمی مرض کاشکار ہے۔پاکستان کو ایک ایسے حکمران کی ضرورت ہے جو آئین کی بالادستی قانون کی حکمرانی اور انصاف کو یقینی بنائے۔ جو پارلیمان میں جاکر عوامی نمائندوں سے عوام کے مسائل سنے، عوام سے رابطہ سازی برقرا رکھے اور اپنے دروازے عام عوام کے لئے کھول دے اور ہر آنے جانے والی خبر پر اپنی ٹیم سے رپورٹ طلب کرے تاکہ آگہی ذمہ داری اور جوابدہی برقرار رہے، ایسے ہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں۔ دشنام ترازی سے کارکردگی کی فائل کا پیٹ نہیں بھرتا۔ بڑے لیڈران کو چھوٹے کاموں کے طعنے زیب نہیں دیتے، ان سے انکا قد چھوٹا ہوتا ہےاور کوئی کام اچھا یا برا نہیں ہوتا اسکو کرنے کا طریقہ اور اس میں نیت اور لگن کا بے حد اثر ہوتا ہے۔ یہی سنتے آئے ہیں کہ کام میں عظمت ہے، والدین بے پناہ محنت ومشقت کرتے ہیں تب ہی بچے وہ آرام آسائشیں پاتے ہیں جو زندگی میں اہم شمار ہوتی ہیں، انکی کوششوں اور کاوشوں کی اہمیت کو کسی کی دشنام طرازی سے کم نہیں کیا جاسکتا۔ مسئلہ کسی کی دوران حراست ہلاکت ، گمشدگی یا ماورائے مادر پدر آزاد قانون احتساب نہیں ہے، مسئلہ یہ ہے کہ ایسے لوگ مسلط کردیے گئے ہیں جو اپنی آئینی و قانونی ذمہ داریوں سے بے بہرہ ہیں،پی سی او کے شیدائی ہی نہیں متمنی بھی ہیں۔ایسے لوگوں سے انصاف کا بول بالااور آئین کی بالادستی چاند مانگنے کے مترادف ہے۔ آپ اپنے مستقبل پہ سرمایہ کاری کریں گےتو ہی محفوظ ہوں گے،بچے ہمارا مستقبل ہیں اور تعلیم کا فروغ ہماری مستقل ترجیح ہونی چاہیے لیکن ہم بیروزگاری کو فروغ دے رہے ہیں اور پھر پوچھتے بھی ہیں کہ لوگ روزگار کے لئے ملک سے باہر کیوں جارہے ہیں؟؟ انصاف اگر قسطوں کی بجائے یک مشت ہو تو کوئی مضائقہ نہیں تاکہ انصاف ہوتا نظر بھی آئے۔
تمام وزیراعظم اپنی کارکردگی پر جانے پہچانے جاتے ہیں،بھٹو صاحب ایٹمی طاقت لائے ،بے نظیر میزائل ٹیکنالوجی،جونیجو نے وزیروں کو چھوٹی گاڑیوں میں ڈالا اور نواز شریف نےموٹروے اورسی پیک کا تحفہ دیا،خان صاحب گالیوں پر اکتفا کررہے ہیں۔قوم کی راہنمائی کے علمبردار اپنے قومی محسنوں کی عزت کرنا سیکھیں وگرنہ جنرل مشرف کے اختتامیے سے کچھ سبق حاصل کریں۔ وہی قومیں اقوام عالم میں برابری کی جگہ یا عزت پاتی ہیں جو اپنے بڑوں اور محسنوں کو نہیں بھولتیں۔ ایک دفع کی ریاستی غداری و بے ضمیری ، قانون کی اصلاح میں غیر قانونی ، لامحدود مضمرات پر حامل لاثانی خصلت ہے اور اسکا مداوا اور علاج ناممکن ہے جب تک قانون سب پر یکساں لاگو نہ ہو۔ قانون کی حکمرانی قانون کی پاسداری سب پر لاگو کریں اور خود احتسابی مجھ سمیت اپنی ذات سے شروع کریں۔مشیت الہی پر کامل یقین راضی بالرضائے الہی اگر زندگی میں نقش ہو تو ایمان کی کمزوری پاس نہیں پھٹکتی۔ اپنی کمزوریوں پر بھی مالک کی ذات پر کامل یقین اور بہتری کی امید ہی آپ کو ہزار مشکلات سے آزاد کروا سکتی ہے۔
شاعر کا بھی یہی اصرار ہے:
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
بیرسٹر امجد ملک چئیرمین ایسوسی ایشن آف پاکستانی لائیرز برطانیہ ہیں اور سپریم کورٹ بار اور ہیومن رائیٹس کمیشن آف پاکستان کے تاحیات ممبر ہیں۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’dailypak1k@gmail.com‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔