پولیس کو عزت دو (2)
یہ بھی تسلیم کیا جاتا ہے کہ اس کے علاوہ کوئی اور سول محکمہ ایسا نہیں جو عوامی خدمت میں اپنی عیدیں، اپنی خوشیاں اور غم،رمضان، چھٹیاں اور تہوار بخوشی قربان کر دیتا ہے، مگر ہماری اجتماعی نفسیات اس کا اظہار کرنے میں حائل ہیں۔ہم ڈاکو کو تو گن پوائنٹ پر تلاشی دینا عقلمندی اور دانشمندی، مگر اپنے محافظوں کو تلاشی دینا اپنی ہتک سمجھتے ہیں۔ جو آپ کی حفاظت کرتے ہوئے 1400سے زائد شہداء کے وارث ہیں۔ ہماری اجتماعی نفسیات بن چکی ہے کہ ہم عزت بطور حق مانگتے ہیں، جبکہ دینے کے معاملے میں انتہائی کنجوس ہیں۔ بعض اوقات ہم سامنے والے کی بے عزتی اس لئے کرتے ہیں کہ وہ ہماری عزت نہیں کرتا۔باہمی احترام کے فقدان سے مجھے یاد آیا کہ محمد احمد خان مرحوم ریٹائرڈایس پی میرے استاد تھے۔ ایک دن منشیات فروشوں کے ایک سپورٹر نے،جو نیا نیا معزز بنا تھا، ایک تھانے دار کی بے عزتی کی۔ اس نے آکر خان صاحب کو بتایا۔ خان صاحب نے کہا کہ اس کے خلاف مقدمہ تو ابھی درج کر لیتے ہیں، مگربیٹھ کر ایک قصہ سنتے جانا کہ ایک فلم میں ایک مجرے کے دوران کچھ تماش بین اداکارہ رانی سے چھیڑ چھاڑ کر رہے تھے۔
وہ گھبرا کر اپنی نائیکہ کی طرف دیکھتی ہے۔ نیر سلطانہ ٹھنڈی سانس بھر کر کہتی ہے، بیٹی اب راجے مہاراجے تو رہے نہیں جو دوسروں کا بھرم رکھنا جانتے تھے۔ ایسے میں انہی نودولتیے کنجروں سے گزارا کرنا پڑے گا۔ محکمہ پولیس کے ماتحتوں سے بات کریں تو وہ کہتے ہیں کہ سارا قصور بڑوں کا ہے، انہوں نے ہماری تربیت ٹھیک طرح سے نہیں کی۔ انہوں نے رینک کو چھوٹا سمجھنے کی بجائے، ہمیں چھوٹا بنانے پر زور دے رکھا ہے۔ہمارے بڑوں نے ہمیں حقیر جانا، بولنے نہیں دیا، ہمارے دلوں میں خوف کے جالے تان دیئے۔ انہوں نے اس حقیقت کو تسلیم نہیں کیا کہ نئی سوچ اور خیالات کا حامل ماتحت محکمے کا مستقبل ہے۔ اس کی ذہن سازی حال اور مستقبل کی ترجیحات کو سامنے رکھ کر نہیں کی گئی۔ وہ ڈنڈے اور خوف کے زور پر ماتحتوں کو قابو رکھنا چاہتے ہیں، جبکہ اس دور کے ماتحت نئے خیالات پر مشتمل ایک دھارا ہے۔ جسے روکنے کی بجائے اس کا رخ بدلنے کی ضرورت ہے۔
خوف مثبت نہیں منفی جذبہ ہے،جو باہمی احترام اور عزت کے امکانات کو کم کرتا ہے۔ خوف کو بڑھاوا دینے کے روشن امکانات اور اقدامات جگہ جگہ موجود ہیں۔ نفرت، غصہ، انتقام، حسد اور دشمنی جیسے منفی جذبات خوف کی مرغوب غذا تصور ہوتے ہیں۔ اس کے بر عکس پیار، محبت، ہمدردی، تعریف اور تحسین جیسے مثبت جذبات اس خوف کا مجرب علاج ہیں، جن کا محکمے میں قحط ہے۔ مجرب علاج کی بجائے خوف کی نشوونما کے لئے اس کی مرغوب غذا کے انتظامات ترجیح سمجھے جاتے ہیں۔اپنائیت کی بجائے سزاؤں میں اضافہ کر کے خوف کی فضاء برقرار رکھنا نہ صرف ضروری سمجھا جا رہا ہے،بلکہ اب کورٹ مارشل کی سوچ بھی زیر بحث ہے، جسے ماتحت افسران مثبت انداز میں نہیں دیکھ رہے۔ چودھری سردار محمد انسپکٹر جنرل آف پولیس پنجاب رہے ہیں۔ ان کی پولیس دوست اور عوام دوست پالیسی اور اقدامات آج بھی محکمے اور عوام میں سراہے جا رہے ہیں۔وہ تھوڑے عرصے میں پولیس اور عوام کو ایک دوسرے کے اتنا قریب لے آئے تھے کہ دونوں میں باہمی احترام واضح نظر آتا تھا۔ افسروں اور ماتحتوں کے لئے ان کے فرمودات آج بھی مشعلِ راہ ہیں، اگر ان کو سنجیدگی سے لیا جائے۔
مثلاً پولیس ایک پیشہ ضرور ہے، مگر اس کا اصل مقصد انسانیت کی خدمت کا مقدس مشن ہے۔جھڑک اور بڑھک کسی بھی انتظامی سائنس کا حصہ نہیں۔ ہمارے ہاں اس کا رواج جاہل اور خود غرض طبقے نے ڈالا ہے۔ سینئرز کا کام رہنمائی اور نگہداشت ہے، وقت بے وقت ناراضگی نہیں۔پولیس کاری ہنر ہے، نہ کہ ہنٹر بازی۔ محض دباؤ سے دبدبہ قائم کرنا نفسیاتی مریضانہ تسکین ہے۔بڑھک بے وقوف، جاہل اور جگا ذہن لگاتا ہے۔ عقلمند مسئلہ حل کر کے حالات کو سنبھالتا ہے۔بہتری کے لئے راہِ عمل درکار ہوتی ہے، جاہلانہ جھڑک نہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیس کو عزت دینے کا آغاز اس عزم کے ساتھ کیا جائے کہ پولیس کے پاس عزت کی فراوانی ہو جائے اوروہ دن رات سڑکوں، چوراہوں پر جھولیاں بھر بھر کے اسے تقسیم کرتے نظر آئیں۔ پبلک اور پولیس کا باہمی احترام اور اپنائیت کا ماحول معاشرے میں امن و سکون کے فروغ اور جرائم میں کمی باعث ہو سکتا ہے۔