ایک محب دین و عاشق رسولؐ کا جنازہ
ہمارے ایک دانشور دوست ڈاکٹر ارشد بٹ صاحب ہیں آپ میگزین جرنلزم سے وابستہ رہے ہیں شوبز، قومی سیاست اور تاریخ ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں آج کل مذہب اور میٹافزکس کا مطالعہ، بلکہ کھوج لگا رہے ہیں انہوں نے بالمشافہ ملاقات میں علامہ خادم حسین رضوی کے جنازے کی جو تفصیلات بتائیں وہ حیران کن ہیں ڈاکٹر صاحب کے بقول وہ اپنے گھر واقع ٹیمپل روڈ سے سوار ہو کر ٹیکسالی چوک تک ہی جا سکے، کیونکہ اس سے آگے تمام راستے مکمل طور پر پیک تھے آٹھ بجے صبح تک گریٹر اقبال پارک کے تمام دروازے سیل کئے جا چکے تھے اور لوگ مرکزی اوورہیڈ برج پر بھی جمع ہو چکے تھے ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ وہ کراچی سے آنے والے لوگوں سے بھی ملے اور ان سے بات چیت کی، جنہوں نے بتایا کہ وہ کراچی سے صبح چھ بجے یہاں پہنچ چکے تھے، لیکن انہیں بھی اقبال پارک کے اندر جانے کی راہ نہیں ملی، پارک 6 بجے بھی مکمل طور پر بھر چکا تھا، انہیں یہاں آنے کی کسی نے کال نہیں دی تھی اور نہ ہی انہیں منظم کرنے کے لئے کوئی تنظیم یہاں موجود تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے یہاں گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے ٹیم ممبران کو بھی دیکھا ان کے لوکل ممبران سے گفتگو کی۔ یہ لوگ اقبال پارک کے باہر مختلف راستوں پر پھیلے ہوئے ہجوم کی پیمائش کر رہے تھے تا کہ شرکاء کی تعداد کا اندازہ لگایا جا سکے ڈاکٹر صاحب کے بقول یہ جنازہ اور اس کے شرکاء پاکستان ہی نہیں بلکہ برصغیر اور دیگر مسلم ممالک کے تاریخی سیاسی و اجتماعی تعداد کے ریکارڈ توڑ چکا ہے اور اب تو انہیں عالمی سطح پر جنازوں کے اجتماع کے ساتھ موازنہ کرنا پڑے گا۔ بہرحال اس مشق کا جو بھی نتیجہ نکلے وہ اپنی جگہ درست سہی، لیکن سردست اس فقید المثال جنازے کی بات کرتے ہیں۔
ایک گناہ گار مسلمان اور محب الوطن پاکستانی کے طور پر مجھے شرح صدر حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کی نصرت کے لئے رجل عظیم پیدا کرتا رہتا ہے ایسا مدتوں سے ہوتا رہا ہے اور اب بھی ہو رہا ہے۔ مولانا مرحوم اللہ کی ایسی ہی نشانیوں میں سے ایک نظر آئے۔ اس عظیم الشان اجتماع نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ یہ سب کچھ امر ربی ہے۔ نقارہ خدا ہے کہ یہ اللہ کا بندہ ہے اللہ اس سے راضی ہے۔ مولانا حافظ قرآن الکریم اور احادیث مبارکہ ہی نہیں تھے، بلکہ کلام اقبال، کے بھی حافظ تھے ایسا لگتا تھا کہ جس طرح انہوں نے قرآن و حدیث کو سبقاً سبقاً پڑھا سمجھا اور حرزِ جاں بنایا بالکل اسی طرح کلام اقبال کو پڑھا، سمجھا اور حرز جان بنایا مولانا عوامی اجتماعات میں، سیاسی و دینی اجتماعات میں، اپنی گفتگو میں قرآن و حدیث اور کلام اقبال کا برمحل استعمال کرتے تھے عوامی انداز میں تقریر کرتے اور مخالفوں کو للکارتے، انہیں پچھاڑتے اور داد و تحسین حاصل کرتے۔مولانا، لاریب ایک بڑے عالم، سکالر اور مقرر تھے ان کی علمیت پر بات کی جا سکتی ہے، ان کے اندازِ گفتگو کا بھی موازنہ کیا جا سکتا ہے، لیکن وہ ایک بات میں یکتا تھے اور وہ تھی ان کی ذاتِ نبی کریمؐ کے ساتھ محبت۔
اس حوالے سے عروج کی ابتدا اس وقت ہوئی جب قومی اسمبلی میں ختم نبوت کے حوالے سے ایک شرمناک بل پیش کیا جانے لگا تھا انہوں نے اس ایشو کو اٹھایا اور پھر ایک تحریک اٹھا دی۔ان کی زندگی میں عروج اس وقت آیا جب ممتاز قادری کو گورنر سلمان تاثیر کو قتل کرنے جرم میں پھانسی دی گئی۔ خادم حسین رضوی اسی ایشو، یعنی حب ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر آگے بڑھے محبان کو جمع کیا۔ منظم کیا تحریک لبیک پاکستان اس کی عملی تعبیر تھی خادم حسین رضوی نے اس پلیٹ فارم کے ذریعے تاریخی کام کر دکھایا ہمارے ملک میں لادین سیکولر عناصر پاکستان کی اسلامی بنیادوں پر ہمیشہ تیشے چلاتے رہے ہیں۔مغرب کے سامنے اسلام کے حوالے سے معذرت خواہانہ رویہ احتیار کرنا اور اپنے آپ کوروشن خیال بنا کر پیش کرنا تاکہ وہ مغرب کی آنکھوں کا تارا بنے رہیں۔ پاکستان کے نظریاتی تشخص کے حوالے سے دینی جماعتوں بالعموم اور جماعت اسلامی کا کردار بالخصوص قابل ستائش رہا ہے لیکن عوامی پذیرائی کے اعتبار سے ان کو زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ہے۔ انتخابی نتائج کے حوالے سے جماعت اسلامی، جمعیت العلماء پاکستان اور دیگر دینی سیاسی جماعتوں کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے۔
تعداد کے اعتبار سے بریلوی مکتبہ فکر کی اکثریت ہونے کے باوجود جمعیت علماء پاکستان کو پذیرائی نہیں مل سکی۔ طاہر القادری صاحب بریلوی مکتبہ فکر کے جید اور بڑے نمائندہ عالم اور لیڈر ہیں، لیکن ان کی پذیرائی بھی تقریروں اور بیانات کی حد تک ہے۔ عمومی تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ عوام دینی جماعتوں اور ان کی قیادت کے حق میں ووٹ نہیں دیتے،نئی نسل کے بارے میں بھی عمومی تاثر یہی ہے کہ وہ نظریہ پاکستان، اسلام اور شعائر اسلام سے لاتعلق ہے لیکن علامہ خادم حسین رضوی نے ون مین آرمی کے طور پر تھوڑے ہی عرصے میں پورے قومی منظر پر لادین اور بے دین عناصر کو جس انداز میں للکارا اور پچھاڑا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ 2018ء کے قومی انتخابات میں مجموعی طور پر مولانا کی پارٹی 22لاکھ ووٹ حاصل کر کے پانچویں نمبر پر رہی، جبکہ سندھ اسمبلی میں دو ممبران منتخب ہوئے۔انتہائی تھوڑے عرصے میں بغیر کسی سیاسی اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے، اتنی بڑی کامیابی حیران کن ہے۔
بطور تاریخ و سیاست کے طالب علم میرا ذاتی تجزیہ ہے کہ عوام میں اس قدر پذیرائی کی وجہ صرف خادم حسین رضوی مرحوم و و مغفور کا حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور دشمنان دین و مذہب کے حوالے سے سیدھا سادہ اور بے لاگ رویہ ہے، جس نے محب وطن و دین لوگوں کے دلوں میں ایک نئی امنگ اور تروتازگی بھر دی۔ علامہ نے ثابت کر دیا کہ اگر نظریاتی پختگی اور اس کے بارے میں سوچ واضح ہو تو پاکستانی عوام آج بھی پاکستان، نظریہ پاکستان، اسلام اور حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تن من دھن سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہیں۔ مولانا کے جنازے میں فقیدالمثال عوامی شرکت نے یہ بات بالکل واضح کردی ہے کہ آج بھی اگر ہماری دینی قیادت بے لاگ اور کھری ہو تو عوام کی اکثریت اسلام پسند اور حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرے گی۔