کمانڈنگ آفیسر یا فوج کا چودھری

کمانڈنگ آفیسر یا فوج کا چودھری
کمانڈنگ آفیسر یا فوج کا چودھری

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


میں جب پاکستان آرمی کے پروفیشنل جریدے ”پاکستان آرمی جرنل“ کی ادارت کیا کرتا تھا تو جس آفیسر سے آرٹیکل کا تقاضا کرتا وہ یہی کہتا کہ انگریزی میں ایک نہیں، چار آرٹیکل لکھوا لو لیکن اردو میں لکھنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ لیکن یہ میگزین تو اردو زبان کا تھا۔ میں ان کو یہی کہا کرتا تھا کہ آپ ”ٹوٹی پھوٹی اردو“ ہی میں لکھ دیں۔ میں ٹھیک کر لوں گا۔
اب اخباری کالموں کا بھی یہی حال ہے۔ میں نے جب بھی کسی دوست سے شکوہ کیا کہ اردو اخباروں کے کالم زیادہ تر ’سیاست‘ کے اردگرد گھومتے ہیں، دفاعی موضوعات پر کوئی لکھنے کو تیار نہیں ہوتا۔ دوستوں کا جواب،وہی ہوتا ہے جو میری ملازمت کے دوران ان برسوں میں ہوتا تھا جب میں نے خود آرمی چیف سے درخواست کی تھی کہ اردو ہماری قومی زبان ہے، اس میں بھی دفاع پر لکھنا چاہیے۔ انہوں نے مجھ سے اتفاق کیا تھا لیکن ساتھ ہی کہا تھا کہ اردو میں لکھے گا کون؟


حالیہ ایام میں چند دوستوں نے تجویز دی کہ وہ اردو میں لکھنے کو تیار ہیں لیکن آرٹیکل کی نوک پلک آپ خود سنوار لیا کریں۔ ابھی کل ہی میرے ایک بھتیجے کرنل وقاص کی طرف سے ایک مضمون موصول ہوا جس کی نوک پلک سنوارنے کی زیادہ نوبت نہیں آئی……مصنف کا نام معلوم نہیں، وقاص نے بھی کسی دوست کی طرف سے موصولہ تحریر بھیجی ہے…… ملاحظہ کیجئے
……………………


ہمارے ایک یونٹ افسر سر کے بال گرنے کی وجہ سے بہت پریشان رہا کرتے تھے۔ اس مرض سے چھٹکارا پانے کے لئے انواع و اقسام کے تیل استعمال کئے، ترش دہی میں خالص سرسوں کا تیل ملا کر اور سر پر لگا کر دو دو تین تین گھنٹے اکیلے ڈرائنگ روم میں بیٹھے رہتے تھے، کسی نے بتایا کہ دیسی مرغی کے انڈے بھی دہی اور تیل میں شامل کر لیا کرو، دو تین مرتبہ ٹِنڈ بھی کروا دیکھی لیکن معاملہ جوں کا توں رہا۔ آخر ایک دوست نے مشورہ دیا کہ سی ایم ایچ راولپنڈی میں ایک سکن سپیشلسٹ بریگیڈیئر سیمی ہوا کرتی تھیں، آج کل ریٹائرمنٹ کے بعد اپنا کلنک کھول رکھا ہے۔ ان سے رابطہ کیجئے۔ موصوف کو باوجود فراغتِ بال و پر کے اپنی مردانہ اور فوجیانہ وجاہت کا زعم بھی تھا، اس لئے مشورہ سن کر سوچنے لگے کہ جاؤں یا نہ جاؤں۔ دوست کو کہا کہ اگر کوئی مرد سکن سپشلسٹ ہو تو اس کا پتہ ارسال فرما دیں۔ دوست نے ایک کرنل (ر) صاحب کا ایڈریس دیا کہ مری روڈ پر چاندنی چوک میں ان کا ہسپتال ہے۔ چنانچہ لاہور سے ڈائیوو پکڑی اور راولپنڈی چلے گئے۔ وقت مقررہ پر جب ڈاکٹر صاحب کے پاس حاضری دی تو ان کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور چھوٹتے ہی فرمایا: ”ڈاکٹر صاحب! آپ کے گھنے سیاہ بالوں کا راز کیا ہے؟ اور جوانی ہی میں جب آدمی فارغ البال ہو جاتا ہے تو ”پسِ پردہ“ وجوہات کیا ہوتی ہیں؟ میں ابھی 30،35کے پیٹے میں ہوں۔ کئی بار شادی سر پر آئی اور عین وقت پر بال نہ ہونے کی وجہ سے سر کے اوپر سے گزر گئی۔ دل کی حالتِ زار آپ کے سامنے کھول دی ہے۔ براہِ کرم خصوصی توجہ فرمایئے“……


ڈاکٹر صاحب سن کر زیرِ لب مسکراتے رہے۔ معاً سر پر ہاتھ پھیرا اور وِگ اتار کر میز پر رکھ دی اور کہا: ”میجر صاحب! میں نے بھی کرنیلی لگانے کے بعد ریٹائرمنٹ لے لی تھی۔ اور پھر فوراً ہی شادی ہو گئی۔ ماشاء اللہ بال بچے دار ہوں۔آپ گھبرایئے نہیں۔ رشتے تو آسمانوں پر لکھے ہوتے ہیں“…… عقل مند کے لئے اشارہ کافی ہوتا ہے۔ ڈاکٹر سے اجازت لی اور لاہور واپس آ گئے۔ اس کے بعد اس سلسلے میں کوئی زیادہ تردد نہ کیا۔ ہم نے مشاہدہ کیا کہ جوں جوں دن گزر رہے ہیں، میجر صاحب کے سر پر بال اگنے لگے ہیں۔ ایک روز ان سے پوچھ ہی لیا کہ اس کایا پلٹ کی وجہ کیا ہے۔ پہلے تو ٹال گئے۔ لیکن ہم نے جب اصرار کیا تو کہا: ”ایک دوست میرے دفتر میں تشریف لائے، سویلین تھے اور شعر و شاعری سے شوق بھی تھا۔ باتوں باتوں میں پوچھا کیا شعر و شاعری پسند ہے؟ میں نے کہا پسند تو ہے لیکن اقبال اور غالب کی نہ ہو کہ وہ بہت مشکل ہوتی ہے۔ دوست نے سن کر تبسم فرمایا اور بولے کہ اگر بُرا نہ منائیں تو غالب کا ایک شعر عرض ہے۔ اس کی ڈی کوڈنگ بھی کر دوں گا۔ شعر یہ ہے:


شوریدگی کے ہاتھ سے سر ہے وبالِ دوش
صحرا میں اے خدا کوئی دیوار بھی نہیں 
آسان لفظوں میں بتا رہا ہوں کہ غالب کو ’ٹِنڈ‘ پسند تھی لیکن بال بہت لانبے اور گھنے تھے اس لئے فوراً حجام کو بلوایا اور فارغ البال ہو گئے کہ صحراؤں میں سر ٹکرا کر گنجا ہونے سے بہتر ہے کہ خود ہی یہ اہتمام کر لوں …… بس اس دن سے میرے بھی دلِ بے قرار کو قرار آ گیا ہے۔ ٹینشن ختم ہو گئی ہے۔ چند روز پہلے آئینے میں دیکھا تو ہر طرف بال ہی بال دکھائی دیئے۔ بس جس دن سے ٹینشن لینی چھوڑی ہے ’بال بردار‘ ہو گیا ہوں!
ہم نے بھی مشاہدہ کیا ہے کہ زیادہ تر آرمی آفیسرز کے بال کمانڈ کے دوران گرنے لگتے ہیں۔ پہلے چاندی آتی ہے اور پھر جانا بھی شروع کر دیتی ہے۔ اچھا بھلا سمارٹ میجر جیسے ہی لیفٹیننٹ کرنل پروموٹ ہوتا ہے اور خوشی خوشی یونٹ کی کمانڈ سنبھالتا ہے تو سر سے سیاہ بال غائب ہونے لگتے ہیں۔ اپنا غم تو شاید اتنا نہیں ہوتا لیکن ٹروپس کا غم اور کمانڈ کی ذمہ داریاں مل کر فارغ البال کرنے لگتی ہیں۔ صبح صبح گھر سے ناشتہ کرکے خراماں خراماں جیپ میں سوار ہو کر یونٹ میں آتے ہیں تو صوبیدار میجر منتظر ہوتے ہیں۔ ابھی کمانڈ چیئر پر براجمان ہوتے ہی ہیں تو ایس ایم صاحب ٹھک سے اندر آ کر سلوٹ مارتے ہیں اور یونٹ رپورٹ دینی شروع کرتے ہیں: ”سر سب خیر خیریت ہے…… رات ایک سپاہی یونٹ سے بھگوڑا ہو گیا ہے۔ پچھلے ہفتے دس دن کی سی لیو (Casual Leave) سے واپس آیا تھا۔ کل پھر چھٹی مانگ رہا تھا۔ جو وجہ بتا رہا تھا، میری نظر میں وہ چھٹی کے لئے ناکافی تھی…… کل شام ایک گاڑی کا کینٹ کے مین (Main) چوک میں ایکسی ڈینٹ ہو گیا تھا۔لیکن سر! شکر ہے زیادہ نقصان نہیں ہوا۔ غلطی ڈرائیور کی بھی نہیں تھی۔ ایک کتا اچانک سامنے سے نمودار ہو گیا تھا، اس کے ساتھ اس کا مالک بھی تھا، اسے بچاتے ہوئے گول چوک سے گاڑی ٹکرا گئی……“


”اور صاحب آگے کیا رپورٹ ہے؟“ کمانڈنگ آفیسر چہرے پر پریشانی لاتے ہوئے سوال کرتا ہے……
”بس سر! باقی تو خیریت ہے۔ چارلی کمپنی کے لنگر میں کل آگ بھڑک اٹھی تھی۔ مشکل سے بجھائی۔ دو کک زخمی ہو گئے جن کو CMH میں داخل کروا دیا ہے۔ خطرے کی کوئی بات نہیں۔کل کبڈی چیمپئن شپ تھی۔ کل 8ٹیمیں تھیں۔ آپ کو آنے کی زحمت نہ دی کیونکہ ٹیم کمزور تھی۔ آٹھویں نمبر پر آئی۔ آڈٹ ٹیم نے دفتر میں کل آڈٹ رپورٹ جمع کروا دی تھی۔ انہوں نے 18اعتراض لگائے ہیں۔ لیکن کوئی سیریس آبجیکشن نہیں۔ صبح صبح بیوی نے بتایا ہے کہ اس کی چچی کا انتقال ہو گیا ہے۔ سرچار روز کی چھٹی کی درخواست ہے…… باقی سب خیریت ہے سر…… رپورٹ عرض ہے!……“


اب قارئین ہی بتائیں کہ ایسی ’عرض رپورٹ‘ روزانہ سننے کے بعد کسی بھی کمانڈنگ آفیسر کے بال سفید نہیں ہوں گے تو کیا کالے رہیں گے؟…… اس کے بعد یونٹ کا سی او ڈاک کا فولڈر کھولتا ہے۔ اس میں بھی پیشہ ورانہ مسائل کا انبار ہوتا ہے۔ کرنل صاحب نے سب کا دھیان رکھنا اور سب کا حل تلاش کرنا ہے۔ چائے کا وقفہ ہونے کو آتا ہے تو کمانڈر (بریگیڈ کمانڈر کو عرف عام میں کمانڈر بھی کہاجاتا ہے) کا فون آ جاتا ہے۔بے چارہ سی او دوڑا دوڑا کمانڈر کے حضور جاتا ہے تو ان کی جلی کٹی بھی سننے کو ملتی ہیں۔دوبارہ یونٹ میں واپسی ہوتی ہے تو ’سپریم کمانڈر‘(بیگم صاحبہ) کا فون آ جاتا ہے: ”آپ گھر کو بالکل وقت نہیں دیتے۔ بیٹے کی طبیعت صبح سے سخت خراب ہے۔ اسے CMH لے کے جانا ہے۔ جلد گاڑی بھجوا دیں۔ اور ہاں! آج ذرا جلدی گھر آ جانا…… شام کو آپ کے سسرال والے تشریف لا رہے ہیں“…… سی او صاحب جب سارے معاملات نمٹا کر گھر پہنچتے ہیں تو شام ہو چکی ہوتی ہے۔ پہنچتے ہی بیگم کی تندو  تیز باتیں سن کر بالوں کی سفیدی کا عمل تیز تر ہو جاتا ہے اور اگلی سٹیج وہی ہوتی ہے کہ آپ وگ تلاش کرنے لگتے ہیں!
مجھے یہاں گاؤں کا ایک چودھری یاد آ رہا ہے۔ اس کے دوست یار اس سے پوچھتے ہیں کہ آپ کہاں کے چودھری ہیں تو وہ جواب دیتا ہے: ”معلوم نہیں …… گھر والے مجھے کہتے ہیں کہ تم چودھری ہو گے تو باہر ہو گے۔ اور باہر والے کہتے ہیں کہ تم چودھری ہو گے تو اپنے گھر میں ہو گے!“

مزید :

رائے -کالم -