مولانا کے رہنما اصول 

مولانا کے رہنما اصول 
مولانا کے رہنما اصول 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


عالمی اور مقامی کھلاڑیوں کے دباؤ سے نکلے بغیر جو بھی پالیسیاں بنائی جائیں گی ان سے کوئی بڑی تبدیلی تو دور کی بات معمولی سی پیش رفت بھی ممکن نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ سیاسی ماحول میں مولانا فضل الرحمن وہ شخصیت بن کر سامنے آئے ہیں جو خرابی کو نہیں،بلکہ اس کی جڑ اکھاڑنا چاہتے ہیں۔ ان کے ذہن کی طرح ان کا موقف بھی واضح ہے۔ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ہونے والے اجتماعات میں وہ بار بار کہتے آرہے ہیں کہ سب سے پہلے تو ہمیں موجودہ سسٹم سے آزادی حاصل کرنی ہے۔ شفاف انتخابات اور دیگر چیزیں بعد کی باتیں ہیں۔ مولانا نے کھل کر کہا ہے کہ ہمیں امریکی کیمپ سے نکل کر چین کی جانب جانا ہوگا ورنہ خود مختاری اور خوشحالی کا حصول ممکن نہیں۔ مولانا نے انہی دنوں تلخ لہجے کے ساتھ یہ بھی کہا کہ باقی سب ہار مان بھی لیں جے یو آئی کسی صورت اپنے ارادے سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ مولانا کا اشارہ اپنی اتحادی جماعت مسلم لیگ(ن) کی جانب ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو کہا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ(ن) فیصلہ کن تحریک چلانے سے ہچکچا رہی ہے۔ اسے شاید لوکل اسٹیبلشمنٹ کی تو پہلے جیسی پرواہ نہیں، مگر امریکہ، مغرب اور عرب ممالک کو ناراض نہیں کرنا چاہتی، کیونکہ سی پیک، کشمیر اور آئی ایم ایف جیسے معاملات پر اس حکومت کو عالمی اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ یہی خدشات ہیں کہ جس کے سبب اب عام لوگوں نے اپوزیشن کو مطلبی قرار دیتے ہوئے اس پر تنقید شروع کردی ہے۔ یہ کہا جارہا ہے کہ سب لائن میں لگ کر اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں۔

سب سے پہلے تو یہ دیکھنا ہوگا کہ ملک میں کسی قسم کی تحریک کے لئے حالات سازگار ہیں یا نہیں۔ اس حوالے سے رائے عامہ کیا ہے اس کا ہر کسی کو علم ہے۔ ایک حساس ایجنسی کے سابق افسر سے ان کی رائے پوچھی گئی تو انہوں نے کہا آج تحریک شروع ہوجائے تو اسے روکنے والا کوئی نہیں۔یہی زمینی حقیقت ہے، مگر اصل مسئلہ اپوزیشن پارٹیوں کا تذبذب ہے۔ ایک بڑی سیاسی جماعت کی فیصلہ سازی میں اہم کردار رکھنے والی شخصیت سے ملاقات ہوئی تو یہی تاثر ملا کسی قسم کا احتجاج کرنا تو کجا ان کو حکومت میں آنے کی بھی کوئی جلدی نہیں۔ ان کو ملکی اور عوامی مسائل کا حوالہ دیا گیا تو کہنے لگے ہم کیا کر سکتے ہیں۔جب بھی کوئی سویلین حکومت آئے دو، تین سالوں میں اسے تنگ کرکے گرا دیا جاتا ہے۔بہتر ہو گا کہ اس مرتبہ تبدیلی کا شوق پورا ہونے دیا جائے۔ دوسری جانب یہ بھی نظر آرہا ہے منصوبہ ساز اگلے عام انتخابات کے نتائج کو مکمل طور پر کنٹرول کرنے کے لئے ہر طرح اقدامات کررہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے اس حوالے سے الزام لگایا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے عالمی طاقتوں کو خوش کرنے کے ای وی ایم، اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے جیسے قوانین منظور کرائے۔ تاکہ اگلا حکومتی سیٹ اپ بھی اس کی مرضی کے مطابق ہی بنے۔ اسٹیبلشمنٹ کے فیصلوں پر دانشوروں، پروفیشنلز، سول سوسائٹی اور عوام کا روعمل کیا ہے اس کی ایک جھلک  پچھلے ہفتے لاہور میں ہونے والی عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں دیکھی گئی۔ چیف جسٹس آف پاکستان کی موجودگی میں انصاف کنٹرول کرنے والے عناصر کا ذکر اتنے زور و شور سے کیا گیا کہ خود ان کے لئے مشکل صورتحال پیدا ہوگئی۔

اس کانفرنس کے دوران ہی”لے کر رہیں گے آزادی“ کے نعرے لگ گئے۔ یہ بات تو ماننا ہوگی کہ پی ڈی ایم کا بیانیہ عام لوگوں تک پہنچ رہا ہے۔ وہ بیانیہ یہی ہے کہ جمہوریت کو ہر طرح کے دباؤ سے آزاد کیا جائے اور ملک کو مسائل میں دھکیلنے والے عناصر کی نشاندہی کی جائے۔ مولانا فضل الرحمن تو اس حوالے سے ٹھوس موقف رکھتے ہیں یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی کھل کر سیاست کرے، جوڑ توڑ میں حصہ لے، دوسروں اداروں کو بھی اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرے اور ساتھ ہی یہ خواہش بھی رکھے کہ اس کا نام نہ لیا جائے۔ 2019ء میں پی ڈی ایم کے گوجرانوالہ کے جلسے میں نواز شریف نے نام لے کر جو کھلبلی مچائی اس کے اثرات آج بھی رنگ دکھا رہے ہیں۔ یہی مرحلہ تھا جب اپوزیشن کو  دن رات برا کہنے کی ڈیوٹی کرنے والے دفاعی تجزیہ کار وزیراعظم عمران خان کو کوسنا شروع ہو گئے تھے کہ انہوں نے اپوزیشن کو مذاکرات میں مصروف نہ کر کے حساس اداروں کے سربراہوں کے لئے مسائل کھڑے کر دیئے ہیں۔ پی ڈی ایم کا بنیادی موقف بھی یہی تھا کہ خرابی کے ذمہ دار عمران خان نہیں، بلکہ ان کو  لانے والے ہیں۔ پی ڈی ایم کی تحریک 2019ء  میں ہی ثمر آور ثابت ہوسکتی تھی، مگر اسٹیبلشمنٹ کے خفیہ ہتھیار پیپلز پارٹی نے چھرا گھونپ دیا۔ چلیں کم ازکم اب تو یہ طے ہوچکا کہ پیپلز پارٹی، ق لیگ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سیاست کرے گی۔ آصف زرداری اینڈ کمپنی عرصہ پہلے ہی جان چکی کہ ہائبرڈ سسٹم بدل بھی جائے اور سو فیصد شفاف انتخابات ہوں تب بھی انہیں ایک خاص حد سے زیادہ فائدہ نہیں۔

سو ان کی کوشش یہی ہے کہ ملک موجودہ نظام کے تحت ہی چلتا رہے اور ان کا کوئی بڑا داؤ لگ جائے۔ ادھر مسلم لیگ(ن)میں بھی ایک بہت بڑا گروپ ہے جو ایسی ہی نوکری کی تلاش میں ہے۔ ان کو اتنا بھی یاد نہیں کہ ابھی 2013ء میں ان کی اچھی خاصی کارکردگی کے باوجود حکومت کی کیسی درگت بنائی گئی تھی۔ آئندہ جب بھی چانس ملا تو ماضی کے برعکس سلوک کیسے ہو گا۔ حقیت تو یہ ہے کہ جس طرح مارشل لا لگانے والے کہتے ہیں اور کوئی راستہ نہیں تھا اس لئے ہمیں آؤٹ آف باکس حل نکالنا پڑا عین اسی طرح بحالی جمہوریت کے لئے بھی سیاسی جماعتوں کو بھی آؤٹ آف باکس حل کی جانب جانا ہوگا۔ یہی بات مولانا فضل الرحمن بار بار بتاتے آرہے ہیں کہ اور کوئی راستہ ہے ہی نہیں،جو لوگ تقرر، تبادلے سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔پتہ نہیں کیسے بھول گئے کہ پاشا کے بعد ظہیر اسلام آئے تو“تاریخی رونق“ لگی۔ پھر آج کا دور دیکھ لیں پوری قوم اور ادارے تبدیلی سے ”فیض یاب“ ہوئے اور ہوتے جا رہے ہیں۔پوری دنیا میں سیاست دانوں کو ہی قوم کی قیادت کرنا ہوتی ہے۔ اگر کوئی جرات مندی کے ساتھ ایسا نہیں کرسکتا تو پھر اسے حقیقی لیڈر کیسے مانا جا سکتا ہے۔ آئی ایم ایف کا شکنجہ اب ہر شہری اپنی گردن میں کسا ہوا محسوس ہورہا ہے اور یہ اذیت رکنے کا دور دور تک کوئی نام ونشان تک نہیں۔ہمارے مستقل حکمران، انگریز سرکار سے وارثت میں ملی ”لڑاو اور حکومت کرو“ کی پالیسی کے تحت قوم کو تقسیم کررہے ہیں۔ جیسے اگلا الیکشن ہونے سے پہلے ہی متنازعہ بنا دیا گیا اس سے سیاسی کشیدگی میں ہرگز کوئی کمی نہیں آئے گی، بلکہ پورے ملک کا ماحول خراب ہوگا۔ اس بگڑتے ماحول کو جواز بنا کر ہائبرڈ سسٹم کی جگہ مزید غیر آئینی تجربہ کرنے کے امکانات ملک کی معاشی بدحالی کے سبب سکڑ کر نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔

اپنے اقتدار کے حوالے سے پریشان بیٹھے وزیر اعظم اور وزرا کو ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی پر پیدا ہونے والے مسائل سے نکلنے کے بعد پھر سے یہ امید ہوگئی ہے کہ اگلا الیکشن بھی ان کی جھولی میں ڈال دیا جائے گا۔ یہی وہ خدشہ ہے جو سیاسی جماعتوں کو ابھی سے سخت پوزیشن لینے پر کی راہ دکھا رہا ہے۔ عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں اسی موڈ کا ظہور ہوا۔ بات پھر وہیں ہے کہ عوامی حقوق کی بحالی اور وسائل کی مساوی تقسیم کے لئے بڑے پیمانے پر پیدا ہونے والے عوامی شعور کو کسی تحریک کا حصہ بنانے کے لئے کسی سیاستدان کو میدان میں آکر لیڈ کرنا ہوگا۔ پی ڈی ایم میں مسلم لیگ(ن) کے سوا باقی تمام جماعتیں فیصلہ کن احتجاج کے لئے تیار ہیں۔ اور بیرونی دباؤ کو بھی خاطر میں نہیں لایا جارہا۔ مولانا فضل الرحمن نے اپنی تازہ ترین تقریروں میں وہ تمام رہنما اصول پھر سے بیان کردئیے ہیں۔ معاملہ اصل فریقوں کے درمیان ہی طے ہوگا۔ شرط یہ ہے کہ متاثرہ فریق دوسرے کو مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور کردے یا پھر اسے اسکے اصل کام تک محدود کردے۔ ان میں سے بھی دوسری بات پہلے سے زیادہ اہم اور ضروری ہے ورنہ وطن عزیز کبھی گرداب سے نہیں نکل پائے گا۔ مرحومہ  عاصمہ جہانگیر نے اپنے انتقال سے قبل یہ بات بار بار زور دے کر کہی تھی کہ حق اور انصاف سڑکوں پر آئے بغیر نہیں ملے گا، ان کا اشارہ نواز شریف، مریم نواز کے انہی مقدمات کی جانب تھا، جس سے حوالے سے اب ثبوت سامنے آنا شروع ہوگئے کہ فیصلے کیسے کرائے گئے، ویسے ان کرداروں کا پہلے ہی سے سب کو علم ہے، بات صرف اتنی ہے کہ ان کو قانون کے کٹہرے میں کیسے لایا جائے، وکلا کا حامد خان گروپ زیادہ شدت سے ان عناصر کے احتساب کا مطالبہ کررہا ہے۔

آڈیو لیکس سے ایک بار پھر یہ بات ثابت ہوگئی سرکاری  اداروں کے افسر کس طرح سے آئین و قانون کو روندتے ہوئے عدالتوں تک کو بھی بری طرح سے استعمال کررہے ہیں۔جب نوسربازی اس سطح تک پہنچ چکی ہو تو محض باتوں اور مذمت سے کسی بہتری کی امید رکھنا ممکن ہی نہیں رہتا۔ نوسربازی سے یاد آیا بھارت نے ابھی نند ن کوویر چکرا کا ایوارڈ دے کر اپنے عوام کو ہی نہیں پوری دنیا کو چکر دینے کی کوشش کی ہے۔ 2019ء کے واقعات میں پاکستان کا کوئی طیارہ گرا نہ ہی کسی قسم کا کوئی اور نقصان ہوا۔ امریکی حکام بھی اس سے تصدیق کرچکے ہیں۔ ریکارڈ درست رکھا جانا ضروری ہے۔ 26 فروری کو بھارتی طیاروں جن میں میراج 2000اور سخوئی شامل تھے پاکستانی حدود میں چوروں کی طرح سے آئے اور فیول ٹینک گرا کر چلے گئے۔ اگلے روز پاک فضائیہ نے جوابی کارروائی کی اپنی حدود میں بھارتی مگ 21 مار گرایا اور پائلٹ ابھی نندن کو پکڑ لیا۔اسی روز مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج نے بوکھلاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا ہی ایک ہیلی کاپٹر مار گرایا۔ ابھی نندن کی گرفتاری اور رہائی پر دونوں ملکوں نے متضاد موقف اختیار کرکے جشن منایا، مگر اسی سال 5 اگست کو بھارت نے وہ کام کیا جو کوئی پچھلے 71 سال میں کرنے کی جرأت نہ کرسکا۔ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اپنا باقاعدہ حصہ بنا لیا۔ اس کے بعد سے اب تک سیز فائر ہے۔ یہ واقعہ کسی بھی طرح سانحہ مشرقی پاکستان سے کم نہیں۔ سقوط ڈھاکہ کی طرح اس پر بھی بحث ہوتی رہے گی۔

مزید :

رائے -کالم -