میزاب کے بعد سیگال گروپ میدان میں
ہمارے معاشرے میں ہر بندہ نفا نفسی، مفادات کی دوڑ، شارٹ کٹ،چیٹنگ کا رونا روتا نظر آتا ہے، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے،مقابلے کی بجائے ٹانگ اڑانے کا ٹرینڈ بھی تیزی سے فروغ پا رہا ہے اس گئے گزرے دور میں بھی ایسے افراد موجود ہیں،جو رزق حلال کے حصول کے لئے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے اصولوں پر کاربند ہو کر کاروبار کرتے ہیں، اور پھر اللہ ان پر رحمتوں کی بارش بھی برساتا چلا جاتا ہے،اور یہ افراد کامیابی کی منازل طے کرتے چلے جاتے ہیں۔آج کے دور میں کسی کو اچھا کہنا اور وہ بھی اس انداز میں کہ اس سے کوئی مفاد وابستہ نہ ہو، تعلق بھی ہو تو وہ اللہ کے لئے اور رضائے الٰہی کے حصول کے لئے میرا خیال ہے اس سے اچھا کاروبار بھی کوئی نہیں ہے،جو براہِ راست اپنے رب سے کیا جاتا ہے،راقم کا لاہور ہائی کورٹ کا لائسنس لینے کے باوجود صحافت کے میدان میں آنا اور پھر مجیب الرحمن شامی جیسی شخصیت کے زیر نگرانی ایک ادارے میں 25سال گزارنے کے بعد حالِ دل بتانے کی جرأت کرنا اللہ کا احسان عظیم ہے۔
حافتی شعبہ میں منافقت کے دور دورہ میں رئیل اسٹیٹ اور ٹریول، عمرہ و حج کی رپورٹنگ دِل جمی سے کرنا اور پھر چار سال ویلیو ٹی وی پر پراپرٹی کے پروگرام کرنے کے بعد اللہ کی توفیق سے مجھ جیسے گناہ گار جیسے حلال حرام کی تمیز ایک دوسرے کا احترام اسلامی جمعیت طلبہ نے سکھا دیا ہو اس کے لئے رئیل اسٹیٹ سیکٹر اور ٹریول، عمرہ ٹریڈ میں سکہ جمانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی، تمہید باندھنے کی ضرورت اس لئے محسوس کی، مقابلہ سازی کی بجائے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے دور میں اچھا کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی مقصد ہے۔ میزاب گروپ میرے سامنے بنا، امتیاز الرحمن چودھری اور شاہد محمود انور کے درمیان ایمانداری اور اخلاص کے ساتھ شروع ہونے والی پارٹنر شپ کامیابی کے جھنڈے گاڑتی چلی گئی۔ عموماً تاثر ہے کہ عمرہ کے کاروبار میں پیسہ بہت ہے میرا ذاتی خیال اور تجربہ ہے پیسے سے زیادہ رسک اور امتحان ہوتا ہے، شروع کے حالات کچھ اور تھے۔ گزشتہ چار سال میں دو سال تو ویسے عمرہ بند ہے۔عمرہ کاروبار مشکل ہو گیا ہے۔ سروسز کی فراہمی ہمیشہ مشکل سمجھی جاتی ہے،دو دوستوں کی دوستی اور کاروباری شراکت کی کامیابی سے منازل طے کرنے کے پیچھے ایثار، قربانی، برداشت، ایمانداری اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہے۔کاروبار میں دو کے ساتھ تیسرے اللہ کو حصہ دار بنانا ہے۔ یہی وجہ ہے اللہ سے جنت کے بدلے اپنے مال وجان کا سودا کرنے والوں کو کبھی خسارے کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
شاہد محمود انور اور امتیاز الرحمن کی کاروباری شراکت اور ان کے عروج کی کہانیاں سنانے والے کورونا کی وبا سے عمرہ سمیت ہر طرح کے کاروبار لپیٹنے جانے پر کانوں کو ہاتھ لگا رہے تھے واقعی سینکڑوں دفاتر بند ہوئے اور ہزاروں کارکن بے روزگار ہوتے مَیں نے خود دیکھے ہیں۔ان حالات میں میزاب گروپ کے روح رواں امتیاز الرحمن چودھری اور شاہد محمود انور نے سیگال گروپ بنانے کا فیصلہ کیا اور سیگال کے انگریزی الفاظ دوستوں سے منسوب کر کے سیگال کی بنیاد رکھی دی ہے۔ پہلے لفظ(ایس) سے شاہد محمود انور(آئی) سے امتیاز اور ایل سے لیاقت علی اور دوسرے دوست اس خوبصورت گل دستہ کا حصہ بن گئے۔میرا ذاتی خیال اور تجربہ ہے رئیل اسٹیٹ کا کاروبار عمرہ سے زیادہ مشکل اور رسکی ہے،اور پھر ایک سے زیادہ دوستوں کی شراکت داری اس سے بھی مشکل۔ اگر اللہ کی رحمت شامل حال رہے تو پھر سَتے خیراں۔
عمرہ کیونکہ تین دن سے تیس دن میں ختم ہو جاتا ہے، جبکہ بلڈر ڈویلپرز کا بنایا ہوا گھر، دکان، دفتر بنتے بنتے اور قبضہ دینے کے بعد بھی جان نہیں چھوٹتی، اس کے باوجود شاہد محمود انور اور امتیاز الرحمن چودھری رسک لینے سے نہیں ڈرتے،اوپر سے اللہ نے انہیں ان جیسے ایماندار بلڈر اور ڈویلپرز ساتھی دے دیئے ہیں جو سونے پر سہاگہ ثابت ہو رہے ہیں۔کورونا کے عروج کے دِنوں میں سیگال گروپ نے اپنا پہلا پروگرام رائیونڈ میں کیا،اور مری کے منصوبے کی تفصیلات رکھی اور لاہور کے مرکز جوہر ٹاؤن میں ایم ایس ٹاور یعنی میزاب اور سیگال ٹاور کی خوشخبری سنائی اور پھر اخلاص اور اچھی نیت نے برکت دی۔ محمد خلیق جیسے ذہین شخص کی صلاحیتوں نے کام دکھایا اور ایل ڈی اے سے منظوری کا مشکل مرحلہ طے پا گیا اور اس کے بعد لیاقت علی جیسے منجھے ہوئے کھلاڑی، جن کے ذمہ مارکیٹنگ آئی۔ عرفان خلیل جیسے ہونہار کی رفاقت میں آگے بڑھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔لیاقت علی کا تذکرہ نہ کیا جائے تو زیادتی ہو گی۔مردم شناس دوستوں کا دوست جو میزاب گروپ، چٹھہ گروپ، مسارات، ھدایا اور اب سیگال کا دُلہا بن کر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہا ہے۔ میزاب کی ساکھ ایمانداری سے پوری کی گئی کمٹمنٹ اب سیگال گروپ کی ساکھ کو دوچند کرنے کے لئے کافی ہے۔
سیگال گروپ کا پہلا منصوبہ ایم ایس ٹاور کا نقشہ سرمایہ کاروں اور اپنا کاروبار کرنے والوں کے لئے بڑا مفید ثابت ہو گا، کیونکہ جوہر ٹاؤن تیزی سے بڑھتے ہوئے لاہور کا مرکز بن چکا ہے۔ایمپوریم اور کینال کے درمیان بننے والا ایم ایس ٹاور واقعی شاندار شاہکار ہو گا۔ شاہد محمود انور کی قیادت میں پی سی لاہور میں گزشتہ روز ایم ایس ٹاور کی لانچنگ 1947ہاؤسنگ اور سیگال ولاز کی پری لانچنگ کی رنگارنگ تقریب،اور شاندار ڈسپلے اور سٹال سیگال ٹیم کی مینجمنٹ کا عکاس اور قابلِ تعریف تھے۔ سب سے بڑی اور اہم بات یہ ہے ہاؤسنگ کے شعبہ میں چند ایک کے سوا 300کنال زمین کے ساتھ 3000/ کنال فروخت کرنے والوں کا دور ہے سیگال گروپ کے چیئرمین شاہد محمود انور کا عمرے کی طرح رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو سیگال کی طرف سے کی گئی کمٹمنٹ پوری کرنے کا یقین دلانا اور ایم ایس ٹاور اور 1947 ہاؤسنگ سکیم اور سیگال ولاز کی منصوبہ بندی سے آگاہ کرنا واقعی انفرادیت کا حامل ہے ایسے بلڈر اور ڈویلپرز کی واقعی ہمارے پاکستان کو ضرورت ہے جو ایمانداری سے کام کریں اور جو کہیں وہ کر کے دکھائیں۔مَیں نے بھی نفسا نفسی کے دور میں یہ کالم ہمارے معاشرے سے تیزی سے دور ہوتی روایات کو زندہ کرنے کے لئے تحریر کیا ہے اگر اچھا کام کرنے والوں،غریبوں کو چھت فراہم کرنے، اور کاروبار کے لئے دکان فراہم کرنے والوں کی حوصلہ افزائی نہ کی گئی تو عوام جو پہلے ہی حرام و حلال کھرے کھوٹے کی پہچان کھو رہی ہے ان کو کیسے پتہ چلے گا، اچھا کام کرنے والے ابھی معاشرے میں موجود ہیں۔امید کریں گے میزاب گروپ کی خوبصورت روایات کو سیگال گروپ بھی آگے بڑھائے گا، ایمانداری، نیک نیتی اور رزق حلال کو ترجیح دیتا رہے گا۔