جب باغی نرم پڑ گیا تو اعزازات کی بارش بھی شروع ہو گئی
تحریر: ظفر سپل
قسط:44
اب ذرا واپس چلتے ہیں، چند سال پیچھے۔۔۔ان دنوں کے پیرس میں جب والٹیر برلن کی ناکام سفارت کے بعد واپس لوٹ آیا تھا ۔ ۔ ۔ اس سے قبل پیرس کے اقتدار اعلیٰ کی غلام گردشوں میں وہ ایک ناقابلِ اعتبار شخص، باغی اور پیرس کے دشمن کے طور پر جانا جاتا تھا، مگر اب جبکہ اس کا سفارتی مشن ناکام رہا تھا، صاحبِ اقتدار لوگوں نے جان لیا کہ اس نے فرانس کے لیے کام کیا ہے اور وہ حساس ذمہ داریاں نبھانے کے لیے بھی ایک موزوں شخص ہے۔ وہ خود بھی اب ڈھلتی ہوئی عمر کا 50 سالہ شخص تھا۔ گویا توانائیاںزوال پذیر ہو رہی تھیں اور بڑھاپے نے وجود کے دروازے پر دستک دینا شروع کر دی تھی۔ اس نے درجنوں نظمیں، کہانیاں، ڈرامے اور دیگر کتب لکھیں تھیں۔ سارا یورپ اس کا مداح تھا، مگر اس کا اپنا فرانس، فرانس کا معاشرہ جو اپنے خطابات اور انعامات کے لیے مشہور تھا، اسے وہ اہمیت نہیںدیتا تھا، جس کا وہ حقدار تھا۔اس کی فطری خواہش تھی کہ اس کا اپنا شہر اسے اعزاز بخشے، مگر یہ بھی جانتا تھا کہ اس کے لیے چند اور ”تقاضے“ پورے کرنا ضروری ہیں۔۔۔کچھ سمجھوتے کرنا ہوں گے۔۔۔اور کل کا باغی یہ سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہو گیا۔
اور جب باغی نرم پڑ گیا تو پھر اعزازات کی بارش بھی شروع ہو گئی۔ اسے شاہی مورخ مقرر کر دیا گیا اور پندرھویں لوئی نے اسے اپنے عہد کے کارنامے لکھنے کی ذمہ داری سونپ دی۔ اس کے دل میں ایک اور تمنا بھی سراٹھاتی تھی اور وہ یہ کہ اسے فرنچ اکا دمی کی رکنیت عطا کی جائے۔ مگر ان دنوں اکادمی پر تنگ نظر مذہبی لوگوں کی اجارہ داری تھی اور والٹیر نے ہمیشہ مذہب اور مذہبی شخصیتوں کا مذاق اڑایا تھا۔ اب اس نے ایک اور سمجھوتہ کیا۔ اس نے اکادمی کے سربراہ کے نام یہ بتانے کے لئے خط لکھا کہ وہ یسوعی فرقے سے وابستہ ہے اور مذہب کا احترام کرتا ہے۔۔۔اب اسے اکادمی کا رکن بنا لیا گیا۔ یہ 1746ءکی بات ہے۔
والٹیر پیرس سے جلد سرے حویلی واپس آ گیا، اپنی پرجوش محبوبہ کے پاس۔ مگر اب اس کی عمر 55 برس ہو چکی تھی اور آتشِ عشق کا آلاؤ ٹھنڈا ہو چلا تھا۔ مگر ایک اور واقعے نے بچے کھچے آلاؤ کی آگ کو راکھ میں بدل دیا۔ یہ 45سالہ ایمیلی کا ایک 33سالہ خوبصورت فوجی کیپٹن سینٹ لمبراں (Saint Lambert)سے معاشقہ تھا۔ والٹیر خاموشی سے یہ تماشا دیکھ رہا تھا، مگر خوش گمان تھا کہ ایمیلی اس قدر بے وفائی نہ کرے گی، مگر جب ایک روز اس نے دونوں کو قابلِ اعتراض حالت میں دیکھ لیا تو پہلے تو غصے سے پاگل ہو گیا، مگر جلد ہی جان گیا کہ اب ایمیلی کو نئے اور جوان خون کی زیادہ ضرورت ہے۔ ادھر ایمیلی سے بھی بے احتیاطی ہو گئی اور اسے پتہ چلا کہ وہ تو حاملہ ہو چکی ہے۔ اس دفعہ ایمیلی نے ایک لڑکی کو جنم دیا، مگر بچی کی پیدائش کے چھٹے روز بیمار ہو کر مر گئی۔ یہ 10ستمبر1749ءکا واقعہ ہے۔۔۔اس کی موت کے وقت اتفاق سے تینوں مرد اکٹھے تھے، اس کا شوہر، پرانا عاشق والٹیر اور نیا عاشق لمبراں۔ کسی کی زبان سے کسی کے لیے ملامت کا ایک حرف نہیں نکلا۔ تینوں ایک دوسرے کے غم میں شریک تھے، مگر والٹیر کے لیے یہ زندگی کا تاریک دن تھا۔ اس نے ایک خط میں لکھا:
”میں محض ایک محبوبہ سے محروم نہیں ہوا، بلکہ خود اپنا آدھا وجود گنوا بیٹھا ہوں“
یہ خط اس نے میری میگنوٹ(Marie Mignot) کو لکھا تھا، جو جلد ہی والٹیر کی زندگی میں آنے والی دوسری اہم عورت بننے جا رہی تھی۔۔۔اس نے ایمیلی کی جگہ لینا تھا۔ ویسے تو اس تعلق کی بنیاد 1744ءمیں پڑی، جو شروع شروع میں تو محض ہیجانی جنسی ضرورت کے تحت تھا، مگر ایمیلی کی وفات کے بعد یہ رشتہ ایک دیرپا تعلق میں بدل گیا، جو والٹیر کی موت تک قائم رہا۔(جاری ہے )
نوٹ :یہ کتاب ” بک ہوم “ نے شائع کی ہے ، جملہ حقوق محفوظ ہیں (ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں )۔