راقم سے 2009ء میں لیکچرر اردو کے انٹرویو میں پوچھا گیا تھا ”اک ضمیر ہوتا ہے،اردو میں بھی اک ضمیر ہے، بتائیں وہ کیا ہے؟ وہ دن اور آج کا دن میں ضمیر جعفری صاحب کو ڈھونڈنے کی کوشش میں لگا رہا۔میں نے سید ضمیر جعفری کے حوالے سے جتنی معلومات حاصل کیں وہ سب ادھوری ہی رہیں،تاآنکہ میرے دوست جناب علامہ عبدالستار عاصم چیئرمین قلم فاؤنڈیشن لاہور کی وساطت سے پاکستان کے معروف قلم کار جبار مرزا کی کتاب“مزاح نگاروں کے کمانڈر اِن چیف سید ضمیر جعفری "بذریعہ ڈاک موصول ہوئی۔کتاب کا ٹائٹل اور مواد دونوں ہی نے شروع ہی سے اپنی طرف کھینچ لیا۔عطاء الحق قاسمی، ڈاکٹر انعام الحق جاوید اور الطاف حسن قریشی نے کتاب اور صاحب کتاب کے بارے میں جو کچھ لکھا وہ دیکھنے سے متعلق ہے۔جبار مرزا نے ضمیر جعفری کے حوالے سے وہ معلومات اس کتاب میں سمو دی ہیں جو اس سے پہلے کہیں پڑھی نہ سنیں۔ ڈاکٹر یوسف عالمگیرین نے صحیح کہا ہے کہ ”جبار مرزا نے اصلی اور نواں نِکور سید ضمیر جعفری "دریافت کیا ہے۔ جبار مرزا کے مطابق ضمیر جعفری کی ولادت کب ہوئی اس کا تعین نہیں ہوسکا۔محض قیاس اور دیسی فارمولوں کی بدولت سن پیدائش 1914ء کہا گیا کچھ عرصہ یہ1915ء اور 1918 بھی رہا،لیکن اس قضیہ کو سب اہل علم اور قصبے والوں نے یہ کہ کر حل کرنے کی کوشش کی کہ چونکہ ضمیر جعفری اس قصبے اور بستی کا بھی ضمیر ہے اس لئے ایک متعین تاریخ پیدایش پر اکتفا ہوجائے۔یوں یکم جنوری 1916ء پر سمجھوتہ ہو گیا۔ضمیر جعفری نجیب الطرفین تھے ان کے ددھیال اور ننھیال دونوں سادات سے تھے۔ضمیر جعفری کی پیدایش جس گاؤں میں ہوئی وہ چک ان کے جد عبدالخالق کے نام سے موسوم ہے۔سید عبدالخالق خوارزمی سولہویں صدی عیسویں میں جب یہاں تشریف لائے تو یہ بیابان تھا۔سید عبدالخالق صاحب کرامات بزرگ تھے۔شیر شاہ سوری نے جب روہتاس میں قیام کیا تو دوران تلاوت قرآن سید عبدالخالق نے انہیں غلط قرآن پڑھنے پر ٹوکا۔ شیر شاہ سوری کا خیال تھا کہ وہ صحیح پڑھ رہاہے۔آپ نے کہا آنکھیں بند کرو، جب ایسا ہی کیا گیا تو شیر شاہ سوری نے لکھا ہوا وہی دیکھا جو آپ نے کہا تھا۔سوری معافی کا طالب ہوا اور ان کے بیٹے سید چاند ولی کو یوں عزتوں سے نوازا کہ قلعہ روہتاس کے ایک دروازے کا نام چاند ولی لکھا۔ضمیر جعفری کے تین بھائی اور تین ہی بیویاں ہوئیں۔سید ضمیر جعفری نے زندگی گزارنے کے لئے کلرکی سے لے کر جمعداری، کپتانی اور میجری تک کا سفر کیا۔انہوں نے چار دفعہ فوجی نوکری کو جوائن کیا اور چھوڑا۔وہ آئی پی ایس آر ڈائریکٹریٹ میں 1962ء تک رہے۔اس دوران دارالحکومت اسلام آباد، آباد کرنے کی ٹھانی گئی۔اسلام آباد کی پہلی اینٹ سے جی سیکس، ایف سیکس، میلوڈی مارکیٹ کے نزدیکی انتظامی بلاک بنے۔ان سیکٹرز اور اسلام آباد کی سڑکوں و شاہراہوں کے نام ضمیر جعفری ہی نے رکھے تھے۔ انہوں نے سی ڈی اے اسلام آباد میں کام کرتے ہوئے بہت سی بین الاقوامی شخصیات کو نہ صرف قریب سے دیکھا بلکہ ان سے محو گفتگو بھی رہے۔ان میں یورپ، عرب دنیا کے حکمران، چین کے وزرائے اعظم، شاہ ایران، عراق کے صدر اور وزیر خارجہ, لبنان کے وزیر اعظم،اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل, بھارت کے کمانڈر ان چیف، شاہ نیپال، مولوی تمیزالدین، بھٹو، جنرل ایوب، پیر پگارو اور بہت سے دیگر لوگ شامل ہیں۔ضمیر جعفری نے پندرہ سال اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے میں گزارے۔وہ ابتدائی سروے سے دم آخر تک اسلام آبادکی تعمیر وترقی کے لئے کوشاں رہے۔جبار مرزا نے اس کتاب میں ضمیر جعفری کی زندگی کے بہت سے ایسے پہلوؤں کو بے نقاب کیا ہے جس کو عام آدمی نہیں جانتا تھا مثلا یہ کہ وہ جنرل ضیاء کے نہ صرف قریبی ساتھی رہے،بلکہ ان کی جنرل ضیاء سے رشتہ داری بھی رہی۔جنرل ضیاء اپنی طرز حکمرانی کی وجہ سے مذہبی اورفوجی حوالے سے مقبول رہے لیکن جبار مرزا نے اس کتاب میں ایک ایسے ضیاء کی بازیافت کی ہے جو نہ صرف شاعری کا شائق تھابلکہ مشاعرے کروانے کا شوقین بھی تھا۔جب ضیاء میجر تھے تب انہوں نے راول پنڈی میں اپنے دوستوں ضمیر جعفری، فضل حق، امیر گلستان جنجوعہ کے ساتھ مل کر راولپنڈی کی تاریخ کا سب سے بڑا مشاعرہ ”یک شب“ کے نام سے کروایا تھا۔اس مشاعرے میں اس وقت کے نامور شعراء،احسان دانش سراج الدین ظفر، احمد فراز، محسن احسان، خاطر غزنوی، تابش صدیقی، باقی صدیقی، قتیل شفائی،مرزا محمود سرحد،ی اللہ دتہ جہلمی، تنویر سپرا، کاوش بٹ، افضل منہاس، صفدر ہمدانی،شوکت تھانوی، روشن نگینوی اور سحاب قزلباش نے شرکت کی تھی۔ اس حوالے سے جوش ملیح آبادی کو خاص طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ مشاعرہ ”بزم یک شب“ میں افواج پاکستان کے کمانڈر اِن چیف بھی تشریف لائے تھے۔جبار مرزا کے بقول جب جوش نے اپنی نظم ”ہچکیوں کا قہقہہ“ پڑھی تو سناٹا چھا گیا تھا کیونکہ نظم میں گہرا طنز تھا۔ اس نظم کی وجہ سے مشاعرے کی انتظامیہ کو اپنے سینئر کے سامنے پیشیاں بھگتنا پڑی تھیں۔فاضل مصنف نے کتاب مذکورہ میں علامہ اقبال کے حوالے سے بھی خاصی پتے کی باتیں لکھی ہیں,یہ کہ ضمیر جعفری کی ان سے بھی قرابت داری تھی۔علامہ کی پہلی بیگم کریم بی بی ضمیر جعفری کی دوسری بیگم انیس زاہرہ کی چچی شہزادی کی بڑی بہن تھی۔جبار مرزا نے علامہ اور ضمیر کا تقابل جس انداز سے کیا ہے اس میں ندرت کے ساتھ مزاح کا عنصر ملتا ہے۔جیسے اقبال کی پہلی شادی نویں جماعت کے بعد جبکہ ضمیر کی شادی دسویں فیل کے بعد ہوئی۔دونوں کی ایک،ایک شادی لاہور میں ہوئی، دونوں نے تین شادیاں کیں،علامہ نے سنجیدہ جبکہ ضمیر نے شگفتہ شاعری سے شہرت حاصل کی۔جبار مرزا نے ضمیر جعفری اور اختر ہوشیار پوری کے مشترکہ معاشقہ کی جو تفصیل لکھی ہے وہ بھی دل لگی کا سامان فراہم کرتی ہے۔ انہوں نے ضمیر کی شادی کے حوالے سے جو باب باندھا ہے وہ ”درون خانہ“ کی ان معلومات تک رسائی ہے جن کے حصول کے لئے محققین کو خاک چھاننا پڑتی ہے۔ضمیر جعفری کی پہلی بیگم سیدہ گوہرہ مقصود ان کی چچا زاد تھیں۔ دوسری سیدہ انیس زاہرہ کا تعلق گجرات کے ایک رئیس خاندان سے جبکہ تیسری بیگم جہاں آراء لاہور کی جدید تعلیم سے آراستہ خاتون تھی۔ پہلی شادی بوجوہ نبھ نہ سکی دوسری وفات پاگئی، تیسری نے عمر بھر ساتھ نبھایا۔فاضل مصنف نے خانگی زندگی کے حوالے سے ضمیر کا یہ قول نقل کرکے بات ختم کی کہ ”میں نے تین شادیاں کیں پہلی دو کو میں نے مارا اور یہ تیسری سخت جان ہے مجھے مارے گی۔ پھر ہوا بھی یوں ہی،جہاں آراء نے ضمیر کی وفات کے دو سال چھ ماہ اور چھبیس دن کے بعد وفات پائی۔سید ضمیر جعفری کو اللہ نے دو بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا تھا۔ایک بیٹا جنرل اور دوسرا کرکٹر بنا۔ضمیر کے بچپن کے شوق کو بھی جبار مرزا نے کتاب مذکورہ میں لکھا ہیں،جن میں بٹیر اور کتوں سے ان کے انس کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ضمیر جعفری اور حفیظ جالندھری کے تعلق کو جس رچاؤ سے جبار مرزا نے لکھا ہے وہ نادر معلومات کہیں بھی میسر نہیں۔ایسے ہی فیض احمد فیض اور دیگر شعراء کا ذکر بھی اس کتاب میں موجود ہے ۔یہ بات کتنی معنی خیز ہے کہ جب ایوب کرنل تھے تو ضمیر کیپٹن تھے۔ ضمیر مزید آگے ترقی نہ کر سکے،جبکہ ایوب کمانڈر ان چیف ہوگئے۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ ضمیر مزاح نگاروں کے کمانڈر ان چیف بن گئے۔ضمیر مختلف اخبارات وجرائد میں مختلف ناموں سے لکھتے تھے۔ انہوں نے اردو ڈائجسٹ میں تین ناموں سے لکھا 'بہرحال جبار مرزا کی کتاب ”مزاح نگاروں کا کمانڈر اِن چیف“ معلومات کا اک حیرت کدہ ہے،جو صوری اورمعنوی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ بہترین مواد پر مشتمل بھی ہے۔
٭٭٭٭٭