ہاؤس آف ننھاز (ناناز)……اعجاز +انور فیسٹیول   (2)

Nov 26, 2024

ڈاکٹر فوزیہ تبسم

 مصور، استاد، مصنف، محقق، نقاد اور تاریخ دان استادوں کے استاد پروفیسر ڈاکٹر اعجاز انور 1946ء  لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔ پاکستان بننے کے بعد ان کا خاندان ہجرت کرنے کے بعد لاہور میں آباد ہوا۔ آپ کے والد انور علی 1950ء سے 1960ء میں انگریزی اخبار پاکستان ٹائمز کے مشہور ومعروف کارٹونسٹ رہے۔ آپ نے کارٹون میں ننھے کے کردار کو تخلیق کیا۔ ڈاکٹر اعجاز انور نے گورنمنٹ کالج سے فائن آرٹ میں گریجوایشن کی اور 1967ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے فائن آرٹس میں اول پوزیشن اور گولڈ میڈل کے ساتھ گریجوایشن کی۔انہوں نے 1978ء میں استنبول ترکی سے مسلم آرٹ میں پی ایچ ڈی کی اور اٹلی میں یونیسکو کے زیر اہتمام ثقافتی ورثے کے تحفظ پر ایک کورس بھی مکمل کیا۔آپ یوگنڈا میں بطور سینئر لیکچرار پڑھاتے بھی رہے۔ 1980ء میں آپ وطن واپس آئے اور بطور نیشنل کالج آف آرٹ (NCAU)میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوئے۔ 1997ء میں پروفیسر ڈاکٹر اعجاز انور کو مصوری کے شعبہ میں نمایاں کامیابیوں کے اعتراف میں صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان نے صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔2018ء میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف آرٹ اینڈ کلچر (پِلاک) کی جانب سے پرائڈ آف پنجاب ایوارڈ سے نوازا گیا۔

ڈاکٹر اعجاز انور نے پرانے لاہور کے کئی صدمے دیکھے ہیں جو ان کی آنکھوں سے عیاں ہیں۔ بقول ڈاکٹر اعجاز آج کا لاہور وینٹی لیٹر یعنی بسترِ مرگ پر ہے۔ ایک زمانہ تھا جب کہ راوی ٹھاٹھیں مارتا دریا تھا جو آج ایک نالے کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے اور پچھلے دنوں انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ خشک راوی میں کچھ کشتیاں ایک قبر نما کھڈے میں پڑی ہوئی تھیں اور دریا کے پیٹ میں ایک ہینڈپمپ (ہاتھ والا نلکا) لگا ہوا ہے جس سے راوی کے کنارے جھونپڑ پٹی کے باسی اپنے استعمال کے لئے پانی لیتے ہیں۔ نئے مصوروں کے لئے ڈاکٹر صاحب مصوری کا پہلا سکول ہیں۔ ہر نئے مصور کے پاس ان کی لاہور کی تصویری کتاب Forty Years of Painting موجود ہے۔ ہر نیا مصور ان کے سٹی سکیپ کی کاپی ضرور اپنے پاس رکھتا ہے اور سیکھتا ہے۔ اس طرح پڑھے لکھے ہوں، استادی شاگردی والے عطائی ہوں، مصور ہوں، سب ڈاکٹر اعجاز کی تقلید کرتے ہیں۔ آپ نے لاہور کی قدیم عمارتوں،حویلیوں کے ساتھ ساتھ لوگوں کے رہن سہن، مصروفیت کوپینٹ کیا ہے بلکہ لاہور کی روزمرہ کی زندگی، عام آدمی کے پیشے، کام کاج، تفریحی بسنت پتنگ بازی، تانگے، آٹو رکشے، چھابڑی والے، فروٹ فروش، بازاروں کی چہل پہل،عمارتوں کے جھروکے و بالکونی ڈاکٹر اعجازکی پیٹنگز کا اصل موضوع ہیں۔ دراصل انہوں نے بڑی محنت، لگن اور چاہت سے لاہور کی تاریخ کو تصویری شکل میں محفوظ کرلیا ہے۔ ڈاکٹر اعجاز انور کی مصوری کو چارحصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

1۔ آزادی کے بعد پاکستان میں تعلیم اور والد صاحب کے ساتھ کا زمانہ

2۔ترکی میں تعلیم و مصوری کا زمانہ

3۔روم میں مصوری کا زمانہ

4۔1979ء کے بعد پاکستان واپسی اور اب تک کا زمانہ

ڈاکٹر اعجاز فرماتے ہیں کہ لاہور ہمارے پاس امانت کے طور پر ہے جسے ہم نے اگلی نسل کو منتقل کرنا ہے۔ انہوں نے قدیم عمارتوں کی حفاظت کے لئے کئی دفعہ احتجاج ریکارڈ کرائے ہیں کہ قدیم عمارتوں کو مسمار ہونے سے بچایا جائے۔ وہ ملکی ترقی کے خلاف نہیں ہیں مگر وہ چاہتے ہیں کہ شہر کی قدیم خوبصورتی کی حفاظت بھی ضروری ہے  جو ہمارے کلچر کی شناخت ہے۔ بسنت لاہور کی ایک اچھی تفریح تھی جسے نہ سمجھ لوگوں نے خونی بنا دیا۔ ڈاکٹر انور رانجھا نے لاہور کی قدیم عمارتوں کی بحالی، حفاظت اور تحفظ کے لئے ایک سوسائٹی بنائی ہے جو متاثرہ قدیم عمارت کا ورک کرتی ہے اور اپنی رائے اور اس کے تحفظ کے لئے سرکاری محکمہ کو آگاہ کرتی ہے۔ایک معتبر مصور کی حیثیت سے ڈاکٹر اعجاز نے لاہور، اسلام آباد، استنبول، روم، لندن اور کوالالمپور سمیت بین الاقوامی سطح پر اپنی پیٹنگز کی نمائشیں کی ہیں۔ ان کی آرٹ کا محور عموماً لاہور کی قدیم عمارتوں کی خوبصورتی کا جشن منانا ہوتا ہے جو کہ ان کے ورثے کے تحفظ کے عزم کوظاہر کرتا ہے۔ لاہور کے نیشنل کالج آف آرٹس (NCAU)میں آرٹ گیلری کے ڈائریکٹر اور لاہور کنزرویشن سوسائٹی کے سربراہ کی حیثیت سے ڈاکٹر اعجاز انور لاہور کی ثقافتی اور معماری وراثت کے تحفظ کے مشن میں ایک اہم کردار ادا کررہے ہیں جو بے شک ان کی ذاتی جدوجہد کے زمرے میں آتی ہے۔

ڈاکٹر اعجاز انور کی خدمات آرٹ تک محدود نہیں ہیں انہوں نے ہاؤس آف ناناز کی بنیاد رکھی جو طلبہ کے لئے ایک ایسی جگہ ہے جہاں وہ اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کو مزید نکھار سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ایک وہیل چیئر بینک بھی چلاتے ہیں جو معذور افراد کو وہیل چیئرز اور نابینا افراد کو سفید چھڑیاں فراہم کرتا ہے اپنے والد انور علی کی میراث کو آگے بڑھاتے ہوئے وہ ننھا کے کردار کو اپناتے ہیں جسے انور علی نے پاکستان ٹائم میں تخلیق کیا تھا اور جس سے ان کی آرٹ کمیونٹی میں بین انسلی اثر کو بڑھانے کی کوشش ظاہر ہوتی ہے۔ڈاکٹراعجاز انور دنیا بھر کا سفر کر چکے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ میں سیاحتی مصور ہوں اس لئے مجھے واٹر کلر میڈیم پسند ہے کیونکہ اس کا رزلٹ فوری ہے اور میٹریل وزنی نہیں ہوتا ہینڈی ہوتا ہے۔(جاری ہے)

مزیدخبریں