اڈیالہ جیل میں بیٹھے بانی پی ٹی آئی نے جب فائنل کال دی تو انہیں یہ شک ضرور تھا پارٹی کے ارکان اسمبلی گرفتاری کے خوف سے اِدھر اُدھر ہو جائیں گے، اسی لئے بار بار ان سے ملاقات کرنے والوں نے باہر آکر تنبیہہ کی کوئی رکن اسمبلی اور پارٹی عہدیدار ڈی چوک پہنچنے کی کوشش سے راہ فرار اختیار نہ کرے۔ بشریٰ بی بی نے بھی یہی پیغام جاری کئے جو رکن اسمبلی احتجاج میں حصہ نہیں لے گا، اس کی پارٹی میں کوئی جگہ نہیں، پھر تحریک انصاف کے آئی ٹی ونگ نے ایک واٹس ایپ بھی متعارف کروائی جس پر نمبر دیئے گئے اور کارکنوں سے کہا گیا وہ ہر اس رکن اسمبلی اور پارٹی عہدیداروں پر نظر رکھیں جو فائنل کال کے لئے کارکنوں کو متحرک کرکے باہر نہ نکلے۔ لیکن صاحبو! آپ کچھ بھی کرلیں، یہاں کوئی فراڈ یا دھوکہ کرنا چاہے تو اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ عقل عیار ہے سو بھیس بنالیتی ہے۔ ہم نے فرینڈلی اپوزیشن کا ذکر بہت سنا تھا۔ اب پولیس فرینڈلی ارکان اسمبلی کو بھی دیکھ رہے ہیں، آج ملتان کے تحریک انصاف کے حامی کارکن حیران ہیں کہ ملک عامر ڈوگر جن کے پاس پارٹی کے اہم عہدے ہیں، شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی اور پنجاب اسمبلی کے رکن معین ریاض قریشی آسانی سے گرفتار کیسے ہو گئے۔ اندھے کو بھی نظر آ رہا ہے پولیس تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کو ڈھونڈتی پھر رہی ہے۔ پھر ایسے موقع پر کہ جب احتجاج کی فائنل کال آ چکی ہے، پولیس نے پورے ملک کو کنٹینروں کے ذریعے جام کر دیا ہے۔ سیدھے راستے سے ملتان تا اسلام آباد سفر کرنا تو ممکن ہی نہیں، پھر یہ تینوں رہنما کس خوش فہمی اور کس خمار میں اپنی بڑی گاڑیوں پر بیٹھ کر گھروں کے باہر ہاتھ ہلاتے اسلام آباد جانے کا ڈرامہ کررہے تھے۔ کیا پولیس انہیں سلامی دے کر اسلام آباد کی طرف رخصت کرتی۔ ظاہر ہے اس نے گرفتار ہی کرنا تھا اور یہ فرینڈلی گرفتاری تو ایک طرف پولیس افسروں کا کارنامہ بننا تھی اور دوسری طرف یہ لوگ بھی بڑی شانت پوزیشن میں ڈسٹرکٹ جیل پہنچا دیئے جانے تھے،احتجاج کی خجل خواری سے بھی محفوظ اور پارٹی کے لئے قربانی دینے کی تاریخ بھی رقم۔ شاید اس کو انگلی پر لہو لگا کے شہیدوں میں نام لکھوانا کہتے ہیں۔ ملتان مزاحمتی سیاست کے حوالے سے ہمیشہ ایک بزدل شہر ثابت ہوا ہے۔ کسی زمانے میں جاوید ہاشمی ایک ایسا کردار تھے جو کچھ بول کر، اپنا حق ادا کرکے گرفتار ہو جاتے، وگرنہ یہاں کسی نے بھی ڈنڈے کھائے اور نہ صعوبتیں برداشت کیں۔ سوال یہ ہے کیا ان گرفتارہونے والے تین رہنماؤں کو اس کا علم نہیں تھا کہ پولیس سخت کریک ڈاؤن کررہی ہے۔ ملتان سے باہر تو کیا شہر سے باہر جانے کی بھی اجازت نہیں، پھر 24نومبر کی تاریخ تو کئی دن پہلے سے معلوم تھی، اس کے لئے انہوں نے کیا منصوبہ بندی کی، کتنے کارکنوں سے رابطے کئے، کوئی ایک کارنر میٹنگ بھی کی، کوئی ایک پلان بھی بنایا کہ ملتان سے کیسے نکلنا ہے، یا کم از کم ملتان میں ڈھنگ کا احتجاج ہی کیسے کرنا ہے، کیا ان لوگوں پر بھروسہ کرکے عمران خان اپنی رہائی کی اُمید لگائے بیٹھے ہیں۔ ملتان شہر میں تو کنٹینرز بھی نہیں لگے تھے۔ یہ رہنما اگر کسی جگہ چھوٹے موٹے جلوس کی صورت میں نکل کر گرفتار ہوتے تو کم از کم ملتان کی اتنی لاج تو رہ جاتی کہ یہاں اہلِ سیاست بستے ہیں اور اپنے مطالبات کے لئے سختیاں برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں تحریک انصاف نے پچھلے دو برسوں میں بڑی سختیاں برداشت کی ہیں۔ بانی چیئرمین سے لے کر نیچے تک قربانیاں دینے والوں کی ایک لمبی فہرست بھی موجود ہے، لیکن ایسے رہنماؤں کی بھی کمی نہیں جو صرف گفتار کے غازی بنے ہوئے ہیں جو ہر مشکل وقت میں بآسانی گرفتار ہو جاتے ہیں اور اس وقت ان کی ضمانت ہو جاتی ہے، جب حالات تھوڑے نارمل ہو چکے ہوتے ہیں۔ ملتان کی لاج صرف شاہ محمود قریشی نے رکھی ہے وہ ایک عرصے سے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں انہیں عمران خان سے دور کرنے کی بہت کوشش کی گئی مگر وہ ڈٹے ہوئے ہیں۔ البتہ ان کے بیٹے زین قریشی پر شک کی انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ آئینی ترامیم کے وقت وہ اچانک منظر سے غائب ہو گئے اور انہوں نے اپنی پارٹی قیادت سے رابطہ ہی منقطع کر دیا جس دن ووٹنگ ہونی تھی۔ وہ ایک ویڈیو کے ذریعے منظر عام پر آئے اور انہوں نے کہا وہ تحریک انصاف کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان کا حکومتی حلقوں سے کوئی رابطہ نہیں،لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی، پارٹی نے انہیں شوکاز نوٹس دیا جس کا جواب وہ تسلی بخش نہ دے سکے۔ ایم این اے ملک عامر ڈوگر بھی ان دنوں مشکوک ہو گئے تھے جب وہ بغیر پریس کانفرنس کئے جیل سے رہا کر دیئے گئے۔ ان دنوں جو ایک بار گرفتار ہو جاتا یا تو جیل میں رہتا یا پھر پریس کانفرنس کرکے رہا ہو جاتا۔ ملک عامر ڈوگر جب اچانک ضمانت پر باہر آئے اور ان پر کوئی دوسرا کیس بھی نہیں ڈالا گیا تو چہ میگوئیاں ہوتی رہیں۔ ملتان ایک ایسا شہر ناپرساں ہے کہ یہاں سیاست بھی مصلحت کے تحت ہوتی ہے۔ یہاں بڑے بڑے سیاسی کردار آئے مگر سوائے چند کے سب نے سیاست کو سکھ چین کی سیج سمجھ کے وقت گزارا، بڑے بڑے سیاسی واقعات ہوتے رہے، بھٹو کو پھانسی چڑھایا گیا، بے نظیر بھٹو قتل ہو گئیں، نوازشریف جلا وطن ہوئے، عمران خان کو اقتدار سے نکالا گیا۔ تحریکیں چلیں، ہنگامے ہوئے مگر ملتان کے سیاسی رہنمابڑی صفائی سے بچتے رہے۔ البتہ سیاسی کارکنوں نے یہاں بے شمار قربانیاں دیں۔ قید و بند کی مشکلات سے گزرے۔ مجھے یاد ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے ایک رہنما حاجی محمد بوٹا ہوتے تھے۔ ایم این اے رہے اور نوازشریف انہیں بڑی اہمیت دیتے تھے۔ ایک بار وہ میرے پاس اخبار کے دفتر آئے۔ ان سے گپ شپ ہوئی، بڑے دلچسپ آدمی تھے۔ کہنے لگے سیاست میں سب سے ضروری بات یہ ہے سیاستدان کی پولیس سے بنی رہے۔ یہ دونوں صورتوں میں کام آتی ہے، اقتدار میں ہوں تو کام کرانے کے لئے اور اپوزیشن میں ہوں تو چھوٹی موٹی گرفتاری کراکے لوگوں کی نظروں میں ہیرو بننے کے۔
آج سب کا خیال ہے جب تک پنجاب کے عوام عمران خان کے لئے نہیں نکلیں گے، انہیں کوئی ریلیف نہیں ملے گا۔ ان کے مطالبات مانے جائیں گے نہ ہی مقتدر حلقوں پر کوئی دباؤ پڑے گا۔ اس فائنل کال کے وقت بھی آپ دیکھ لیں جو کچھ بھی ہو رہا ہے خیبرپختونخوا کے کارکن کررہے ہیں۔ وہ بھی اگر علی امین گنڈا پور وزیراعلیٰ نہ ہوں تو شاید اتنی بڑی تعداد میں لوگ اسلام آباد کا رخ نہ کریں۔ عمران خان کی مقبولیت اپنی جگہ ایک حقیقت ہے مگر پارٹی کی قیادت اگر مصلحتوں کا شکار ہو جائے یا فرینڈلی گرفتاریوں کے ذریعے خود کو منظر سے ہٹا کر محفوظ مقام پر منتقل ہو جائے تومعاملات کھیل تماشے کی حد تک تو ٹھیک چلتے رہیں گے، مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہو سکیں گے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے جو شاید تحریک انصاف والے سمجھنا نہیں چاہتے یا پھر اس سے نظریں چرائے ہوئے ہیں۔