مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:73
خدائی کے دعویدار فرعون کا مقبرہ
احمد نے بتایا کہ ہمارا اگلا پڑاؤ مشہور زمانہ فرعون رعمیسس ثانی کا مقبرہ تھا جو وہاں سے کچھ ہی دور واقع تھا اور یہ فاصلہ باآسانی پیدل طے کیا جاسکتا تھا۔ اس لئے ہم بھی سیاحوں کے ایک جتھے کے ساتھ اس سمت روانہ ہوئے۔کچھ ہی دور چل کر اس کے بڑے اور عظیم الشان مقبرے کے آثار نظر آنے لگے۔ احمد نے موقع غنیمت جانااور وہیں ایک دیوار کے سائے تلے بیٹھ کر اس عظیم فرعون کی رٹی رٹائی تاریخ دہرانے لگا۔ جوا س لئے بھی ضروری تھا کہ مقبرے کے اندر داخل ہونے کے بعد کی معلومات با آسانی سمجھ آ جائیں۔
یہ وہی فرعون تھا جس کا ذکر پہلے بھی بکثرت اور کافی تفصیل سے ہوچکا ہے اور جس کی ممی ہم نے قاہرہ کے عجائب گھر کے ایک کمرے میں پڑی دیکھی تھی۔ اسی فرعون کا قصہ مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کریم میں آیا ہے اور تقریباً اس سے ملتی جلتی روایتیں انجیل اور تورات میں بھی بیان ہوئی ہیں۔ہر چند کہ مقدس کتابوں میں کسی فرعون کا نام ظاہر نہیں کیا گیا، لیکن زیادہ تر روایات اسی فرعون یعنی رعمیسیس ثانی سے ہی منسوب ہیں،جس نے حضرت موسیٰؑ اور ان کی قوم بنی اسرائیل پر ظلم و ستم کے پہاڑتوڑ دیئے۔ اس کی فوجوں نے، جن کی کمان یہ خود کر رہا تھا، ان کو مصر سے نکال کر ان کا پیچھا کیا اور انہیں دھکیلتے ہوئے بحیرہ احمر تک لے گئے۔ جہاں اللہ کے حکم سے سمندر نے دولخت ہو کر حضرت موسیٰؑ اور ان کے ساتھیوں کو راستہ دے دیا اور وہ سمندر سے صحیح سلامت دوسری طرف نکل گئے اور جب فرعون کی فوجوں نے انکی تقلیدمیں اسی راستے سے نکلنے کی کوشش کی،تو سمندرایک بار پھر آپس میں مل کر یک جان ہو گیا اور یہ تمام لوگ اس میں غرق ہوئے۔
عام روایتیں اور لکھی گئی تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ فرعون سمندر کے کنارے ایک اونچی پہاڑی پر کھڑا اپنی فوجوں کو احکامات جاری کر رہا تھااور وہ خود سمندر میں نہیں اترا تھا، اس لیے بچ گیا اور بعد میں عمر کے1 9 سال پورے کرکے اپنی طبعی موت مرا۔تاہم ایک جدید تحقیق کے مطابق، قران مجید میں بیان کیا گیا واقعہ حقیقت کے قریب ترین ہے جس میں اس کے سمندر میں غرق ہونے کا ذکر ہوا ہے۔ حالیہ دنوں میں فرانس میں اس کی ممی پر کئے گئے کچھ تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ اس فرعون کے جسم اور معدے میں بڑی مقدار میں نمک کے ایسے اجزاء پائے گئے ہیں، جو عموماً سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہونے والوں میں ہوتے ہیں۔ دونوں حقیقتوں کو اگر ایک ساتھ رکھا جائے تو یہ البتہ ممکن ہے کہ یہ واقعہ اس کی عمر کے آخری دور میں وقوع پذیر ہوا ہو جب وہ اپنی بادشاہت کے چھیا سٹھ اور عمر کے91 برس پورے کر چکا تھا۔کچھ سائنسدانوں اور محققوں نے یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس سارے قصے میں رعمیسس ثانی کا کوئی کردار نہیں تھا، بلکہ وہ کوئی دوسرا ہی فرعون تھا جس کے دور میں یہ واقعہ پیش آیا۔اصل حقیقتوں کا علم تو میرے رب کوہی ہے۔
رعمیسس ثانی کو ابتدائی طور پر اپنے ہی تعمیر کردہ مقبرے میں، جس کو KV-7 کہا جاتا ہے، دفن کیا گیا تھا۔ اس کا دور بادشاہت بڑا ہی مؤثر اور ایک طویل عرصے پر محیط تھا، اس لئے اس کو اپنے مقبرے کی تعمیر و تزین کے لئے ایک لمبا عرصہ مل گیا تھا۔ اس نے اپنی بادشاہت کے دوسرے ہی سال اس کی تعمیر شروع کر دی تھی اور اس کے لیے اس نے دریائے نیل کے اس پار مغرب کی طرف ایک پہاڑی کو منتخب کیا اور اس کے دامن میں کئی فٹ گہری کھدائی کرکے اپنے مجوزہ مقبرے کا راستہ بنایا اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ اگلی کئی دہائیوں تک یہ تعمیر ایک تسلسل کے ساتھ جاری رہی اور مقبرے کی عمارت وسیع تر ہوتی گئی۔اس نے اپنے مقبرے کے در و دیوار سجانے میں بھی کوئی کسر اٹھانہ رکھی تھی۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں