اپنی ذات میں موجود مختلف صلاحیتوں کا اظہار کرنے میں بذات خود کوئی برائی نہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انہیں ضرررساں انداز میں استعمال کیا جا سکتاہے

Nov 26, 2024 | 10:42 PM

مصنف:ڈاکٹر وائن ڈبلیو ڈائر 
ترجمہ:ریاض محمود انجم
 قسط:60
اپنی ذات میں موجود مختلف خصوصیات‘ خوبیوں اور صلاحیتوں کا اظہار کرنے میں بذات خود کوئی برائی نہیں ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انہیں نقصان دہ اور ضرررساں انداز میں استعمال کیا جا سکتاہے۔ اپنی ان خوبیوں، صلاحیتوں اور صلاحیتوں کو مختلف علامتوں اور شناختوں کے ذریعے ظاہر کرنے کا عمل آپ کی ترقی اور کامیابی کے لیے رکاوٹ ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان خصوصیات‘ خوبیوں اور استعدادوں کا مالک ہونے کی بناء پر ان کے اظہار کو بآسانی جائز قرا ردیا جا سکتا ہے۔ ایک مشہو رمصنف کا قول ہے ”جب آپ میری کوئی شناخت و علامت مقرر کرتے ہیں، آپ میری نفی کر دیتے ہیں۔“ جب ایک فرد کے لیے کوئی شناخت یا علامت ناگزیر ہو جاتی ہے تو اس کی اپنی شخصیت مغلوب اور غائب ہو جاتی ہے۔ اپنی ذات کو مختلف شناختوں اور علامتوں کو بیان کرنے پر مبنی روئیے پر بھی اس اصول کا اطلاق ہوتا ہے۔ آپ اپنی پہچان، اپنی شناخت و علامت کے ذریعے خود میں موجود صلاحیتوں کا اظہار کرنے کے لیے اپنی ذات کی نفی کر رہے ہیں۔
اپنی ذات کی علامتیں اور شناختیں، آپ کے ماضی کا شاخسانہ ہیں لیکن ماضی راکھ کا ایک ڈھیر ہے۔ مزیدبرآں اپنے آپ کا جائزہ لیں کہ آپ کس حد تک ماضی کے چنگل میں گرفتار ہیں۔اپنے آپ کو بے وقعت اور غیراہم سمجھنے پر مبنی اپنی خوبیوں، خصوصیات اور استعدادوں پر مشتمل علامتیں اور شناختیں آپ کے مندرجہ ذیل چار ذہنی رجحانات کا شاخسانہ ہیں:
1:”میں ہی سب کچھ ہوں۔“
2:”میں تو ہمیشہ ہی ایسا ہوں۔“
3: ”میں اپنی یہ عادت ترک نہیں کر سکتا۔“
4: ”یہ میری فطرت ہے۔“
یہ وہ رکاوٹیں ہیں جن کے باعث آپ اپنی زندگی کو ایک انقلابی رخ دینے میں ناکام رہے اور موجودہ لمحے سے حاصل ہونے والی ایک متوقع خوشگوار، مسرت انگیز اور بھرپور زندگی کے قریب بھی نہ پھٹک سکے۔
میں ایک ایسی دادی کو جانتا ہوں کہ جو ہر اتوار کو، جب تمام خاندان رات کے کھانے کے لیے اکٹھا بیٹھتا ہے، تو وہ تعین کرتی ہے کہ ہر ایک فرد کو ایک رکابی کے لحاظ سے کھانے کی کس قدر مقدار ملنی چاہیے۔ وہ ہر شخص کو گوشت کے 2ٹکڑے، چمچ بھر مٹر، مٹھی بھر آلو وغیرہ دیتی ہیں۔ جب اس سے یہ کہا جاتا ہے ”تم ایسے کیوں کرتی ہو؟“ تو اس کا جواب یہ ہوتا ہے: ”میں تو ہمیشہ سے ہی ایسے کرتی آئی ہوں۔“ جب اس سے پوچھا جاتا ہے ”کیوں؟“ تو اس کا جواب ہوتا ہے: ”کیونکہ یہی میری عادت ہے۔“ اس دادی کا یہ منطقی طرزعمل اس کی اپنی شناخت و علامت ہے اور یہ اس کی ماضی کی عادات کا شاخسانہ ہے۔
کچھ لوگ اپنے روئیے کے ذریعے ان 4 فقرات یعنی 4 رجحانات کا ایک ہی تسلسل میں اظہارکریں گے۔ آپ ایک شخص سے پوچھ سکتے ہیں کہ جب حادثات کا موضوع زیربحث آتا ہے تو وہ ہمیشہ ہی کیوں پریشان ہو جاتا ہے تو اس کا جواب یہ ہو سکتا ہے: ”اوہ یہ تو میری عادت اور فطرت ہے، میں تو ہمیشہ اسی طرح کرتا ہوں۔ اس کے بغیر میرے لیے اور کوئی چارہ کار نہیں، یہ میری فطرت ہے۔“ یہ کسی عجب منطق ہے! یہ شخص یہ چاروں فقرات بیک وقت استعمال کر رہا ہے اور ہر فقرہ اس امر کی وضاحت کر رہا ہے کہ وہ اپنی یہ عادات کبھی تبدیل نہیں کرے گا۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزیدخبریں