امریکی حسن سلوک

امریکی حسن سلوک
امریکی حسن سلوک

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان کے بارے میں امریکی پالیسی جاننے کے لئے وہاںکے صدارتی امیدواروں کی تقریریں سننے کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں تھی، امریکی پالیسی ایک کھلی کتاب کی طرح ہے اور پینسٹھ برس پرپھیلے ہوئے اس کے صفحات ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہیں۔حالیہ صدارتی مباحثے نے تو صرف ہمارے زخموں پر نمک پاشی کی ہے۔یہ کس قدر ستم ظریفی ہے کہ دونوں صدارتی امیدوار پاکستان کے بارے میں یکساں خیالات رکھتے ہیں، پاکستان کے کردار کو شک کی نظروں سے دیکھتے ہیں اور ہمارے خلاف سخت رویہ اپنانے پر متفق ہیں۔ اس مباحثے کے بعد امریکی صدارتی انتخاب کے نتیجے سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ جس امیدوار نے بھی جیتنا ہے، اس نے پاکستان سے وہی حسن سلوک روا رکھنا ہے جس کا تجربہ ہم کئی عشروں سے کر رہے ہیں ۔ عام طور پر کہا جاتا تھا کہ امریکی ری پبلکن پارٹی پاکستان کے بارے میں نرم گوشہ رکھتی ہے اور ڈیموکریٹ کا زیادہ جھکاﺅ بھارت کی طرف ہے مگر نہ نکسن نے ہمارے ساتھ کوئی نیکی کی، نہ سینئر اور جونیئر بش سے ہمیں کوئی اچھائی ملی، نہ کلنٹن اور اوبامہ ہمارے اوپر مہربان ہوئے۔ نجانے کتنے پاکستانی ہیں جو اس پر پھولے نہیں سماتے تھے کہ اوبامہ نے حلف اٹھایا تو اپنا پورانام بارک حسین اوباما استعمال کیا۔ اس سے ہمیں وہم ہو گیا کہ یہ شخص اندر سے تو ضرور مسلمان ہے اور ہم نے اس سے پتہ نہیں کیا کیا امیدیں وابستہ کر لیں ، اس کی کالی رنگت کی وجہ سے ہم نے اسے ایک سیاہ فام انقلابی صدر بھی قرار دیا مگر ہم نے پچھلے چار سال میں اس کے ہاتھوں جو مصائب برداشت کیے، اس سے ہمارے سارے خواب چکنا چور ہو گئے۔ہمارے ملک میں پے در پے ڈرون حملوں نے ہماری خود مختاری کو تاراج کیا،ایبٹ آباد آپریشن تو ایک کھلی اور ننگی جارحیت کے مترادف تھا ، اور سلالہ چیک پوسٹ پر پاک فوج کے دستے کا قتل عام کسی ہولوکاسٹ سے کم نہیں تھا۔ہماری پارلیمنٹ کی قراردادوں کو پر کاہ کے برابر اہمیت نہ دی گئی۔اور اگر ہم نے احتجاج کے طور پر نیٹو سپلائی بند کی تو ہماری شہہ رگ پر انگوٹھا رکھ کر اس کو بحال کروایا گیا۔ پاکستان کی نیت پر ہمیشہ شک وشبہے کا اظہار کیا گیا حالانکہ ہم سات ہزار فوجی افسر اور جوان اور چالیس ہزار سویلین افراد شہید کروا چکے ہیں اور ہماری معیشت کو کھربوں کا نقصان پہنچ چکا ہے، ہم لوڈ شیڈنگ کے اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں۔ گیس کی کمیابی کی وجہ سے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑے ہیں،ہمارے نوجوان ہاتھوں میں ڈگریا ںلے کر روزگار کی تلاش میںمارے مارے پھرتے ہیں۔کیا یہی وہ صلہ ہے جو امریکہ ہماری قربانیوں کے نتیجے میں دینا چاہتا تھا۔
امریکی صدارتی امیدواروں نے پاکستان کے بارے میں اپنے نیک خیالات کا اظہار کر دیا، ان کی پالیسی کھل کر سامنے آ گئی، ہمارے اپنے الیکشن بھی سر پر ہیں، انتخابی سماں نظر آرہا ہے اور ہماری لیڈر شپ کا بھی فرض ہے کہ وہ دہشت گردی کی جنگ کے بارے میں اپنی پالیسی واضح کرے۔ مگربد قسمتی سے ہم حسب معمول بلیم گیم میں الجھے ہوئے ہیں ، ہرکوئی دوسرے پر الزامات کی بارش کر رہا ہے، نئے پنڈورا بکس کھل رہے ہیں اور جو سانپ نکل چکا، اس کی لکیر کو پیٹنا ہم نے شغل بنا لیا۔مگر جس طرح دنیا ہمارے بارے میں اپنے ارادے کھل کر ظاہر کر رہی ہے، ہماری سیاستدانوں کو بھی خارجہ پالیسی اور خاص طور پر امریکہ کے ساتھ معاملات پر اپنی سوچ واضح کرنی چاہئے، ووٹروں کو پتہ ہونا چاہئے کہ الیکشن کے نتیجے میں جو پارلیمنٹ تشکیل پائے گی، وہ دہشت گردی کی جنگ پر کیا پالیسی اختیار کرے گی، کس حد تک امریکی حاشیہ نشین ہو گی اور کس حد تک ملکی اقتدار اعلی اور آزادی کی محافظ ثابت ہو گی۔ ہمیںاپنے الیکشن کو سنجیدگی سے لینا چاہئے اور ہماری سیاسی جماعتوں کو ایک واضح منشور پیش کرناچاہئے تا کہ لوگ بھلے اور برے میں تمیز کر سکیں۔ ہمارے قائدین کرام کو لا یعنی بحثوں، الزام تراشی اور محاذ آرائی کی روش ترک کرنا ہو گا اور کھل کر بتانا ہوگا کہ وہ ملک کو اور قوم کو درپیش ایک ایک مسئلے پر کیا سوچ رکھتے ہیں اور دہشت گردی کی جنگ جس نے ہماری رگوں سے خون کاآخری قطرہ بھی نچوڑ لیا ہے، اس پر آئندہ کی مقتدر سیاسی قوتوں کی پالیسی کیا ہو گی۔
افسوس کی بات ہے کہ جب دنیا کی واحد سپر طاقت کے دونوں صدارتی امیدوار ہمیں دھمکا رہے ہیں، ہم سپریم کورٹ کے ایک حالیہ تاریخ ساز فیصلے کی آڑ میں ایک دوسر ے کا گریبان تار تار کر رہے ہیں۔بلا شبہہ اس فیصلے نے ہمیں ایک نئی راہ دکھائی ہے، یہ کہا گیا ہے کہ تاریخ نے سچ اگل دیا ہے اور سچ ہمیشہ تلخ ہوتا ہے، اسے نگلا نہیں جا سکتا، ہضم نہیں کیا جا سکتا ، یہی وجہ ہے کہ ہم اس فیصلے کے آئینے کے مقابل کھڑے ہونے سے کترا رہے ہیں اور ہماری خواہش ہے کہ ہمارا مخالف تو اس فیصلے کے شکنجے کی زد میں آئے لیکن ہماری اپنی گردن اس میں نہ پھنسے۔پاکستان میں احتساب اول تو کسی کا ہوا نہیں اور اگر ہوتا ہے تو انتقام کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔میرا ذاتی تجربہ انتہائی تلخ ہے۔ میں اپنے تجربے کی بنیاد پر کہتا ہوں کہ ہمیں یا تو ایک مرتبہ ماضی کو بھول کر آگے کی طرف بڑھنا چاہئے۔ ماضی میں جو ہوا، سو ہوا، کوئی اس دنیا سے رخصت ہو گیا ، یا گولیوں سے شہید کر دیا گیا، ان جرائم کی سزا دینے بیٹھیں توایک نئی الف لیلی کے اوراق کھل جائیں گے اور احتساب میں صدیاں لگ جائیں گی، جبکہ ہمارا نظام انصاف فوری فیصلے سامنے لا ہی نہیں سکتا، شہادتیں ، پیشیاں، تفتیش کا عمل پیچ در پیچ ہے اور اس سے گزر کر سچ اور جھوٹ کی تمیز کرنا بھی مشکل۔لیکن اگر قوم کا فیصلہ اور ارادہ اور مطالبہ ہو کہ قیام پاکستان کے بعد کے ہر قومی مجرم کو سزاملنی چاہئے تو پھر بسم اللہ! ہمیں اس سمت کا تعین کر کے احتساب کا آغاز کر دینا چا ہئے، پھر تو ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ہمارے ماضی کے ڈکٹیٹر دس گیارہ برس تک کن کندھوں اور کن اداروں کی تائید سے سیاہ و سفید کے مالک بنے رہے مگر میں پھر کہتا ہوں کہ احتساب کا یہ طریقہ ایک جنجال سے کم نہیں ہو گا ، ہم اپنی توانائیاں ضائع کر لیں گے، ہمارے مخالفین ہمارے سر پر چڑھے ہوئے ہیں ، وہ اس انتظار میں نہیں بیٹھیں رہیںگے کہ ہم اپنا احتساب کا عمل مکمل کر لیں اور وہ پھر ہمارے خلاف اپنا ادھار چکائیں گے، ان کے تو آئندہ الیکشن کے امید وار بھی اپنے عزائم ڈھکے چھپے نہیں رہنے دیتے۔ عقل کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے گندے کپڑے زمین میں دفن کر دیں ، انہیں بھرے چوک میں دھونے کی کوشش نہ کریں اور ماضی کی خرابیوں سے لا تعلقی اورخلاصی حاصل کریں، قوم سے کھلے دل اور نیک نیتی سے اپنے جرائم کی معافی مانگیں ، ان پر شرمندگی کا اظہار کریں۔ہماری قوم اپنے سیاستدانوں سے بصیرت، اور تدبر کا مطالبہ کر رہی ہے۔مفاہمت ہی وہ راستہ ہے جو ہمیں ماضی کی اندھیر گردی اور مستقبل کی تباہی سے محفوظ رکھنے میں مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔ہمارے سیاسی راہنماﺅں ہی کو نہیں، بلکہ ہمارے قومی اداروںکو بھی مفاہمت کی سوچ اپنانی چاہئے۔حکومت، پارلیمنٹ، فوج ،عدلیہ،اور انتظامیہ بھی قومی مفاد کو عزیز جانیں تو یقین کیجئے کہ ہم اپنی آزادی اور سلامتی کو بھی بچا سکتے ہیں۔دہشت گردی کی جنگ پر فیصلہ بھی ہمیں متحد ہو کر کرنا ہوگا۔ہمارے ارد گرد کئی ملک ایسے ہیں جو اس جنگ کے شعلوں میں نہیں کودے ، ان کے عوام کی جان و مال محفوظ ہے اور امریکہ سے ان کے تعلقات میں بھی کوئی خرابی نہیں آئی، ہمیں بھی ایسی پالیسی اپنانا ہو گی جس سے ہم دہشت گردی کی جنگ سے باہر نکل آئیں ، اپنی سرحدوں کو مستحکم کریں ، نہ کسی بیرونی طاقت کو مداخلت کرنے دیں اور نہ کسی کو اپنی سرزمیں اڈے کے طور پر استعمال کرنے دیں، یہی آزاد روی اور غیر جانبداری ہماری بقا کی ضامن ہے مگر اس پر قوم کا اتفاق رائے تو ہونا چاہئے۔ اسی قومی اتفاق رائے کی وجہ سے امریکی قیادت پاکستان کے ساتھ حسن سلوک پر نظر ثانی کرنے کے لئے مجبور ہو گی۔

مزید :

کالم -