قائداعظمؒ کا فرمان

قائداعظمؒ کا فرمان
 قائداعظمؒ کا فرمان

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے زندگی آموز اقوال زریں میں کام کام اور کام کا قول صادق بھی موجود ہے .

قائداعظمؒ کی قیادت میں پاکستان وجود پذیر ہوا . اس کے پاس وسائل کی شدید قلت تھی .نو زائدہ مملکت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے اور مضبوط بنانے کے لئے محنت کی ضرورت تھی . اس موقع پر قائداعظمؒ نے قوم کے تمام طبقات کو کام کام اور کام کی تلقین کی .

وہ دن گیا اور آج کا آیا، پاکستان کے کاروباری طبقے نے قائداعظم کے فرمان کو اپنی زندگیوں کا نصب العین اور محنت کو اپنا شعار بنا رکھا ہے .ملک میں نشیب و فراز اور دھوپ چھاؤں آتی رہی .عنان اقتدار کبھی جمہوری اداروں کے ذریعے سول افراد کے ہاتھ میں اور کبھی فوج کے پاس رہی .

کاروبار کے لئے حالات مشکل تھے یا سازگار . اہل صنعت و حرفت نے محنت سے ہاتھ نہیں کھینچا . قومیانے کے نام پر ملیں، کارخانے اور فیکٹریاں چھین لی گئیں . کاروباری طبقہ پھر بھی دل برداشتہ نہیں ہوا، بلکہ نئے اداروں کو جنم دیا اور اہل وطن کو روزگار فراہم کیا .قائداعظم رحمہ اللہ کے فکر کے وارث اہل سیاست نے عوام میں اتحاد و اتفاق اور یکجہتی کا ماحول پیدا کرنے کی بجائے اپنے اقتدار کی خاطر قوم میں افتراق و انتشار پیدا کرنے سے گریز نہیں کیا . نوجوانوں کو محنت سے ہٹا کر جلسوں اور دھرنوں میں بٹھایا اور بے روزگار بنایا .

الیکشن میں کامیابی کے بعد شہد اور دودھ کی نہریں بہانے کا جھانسا دیا، لیکن بے روزگاروں کے جھرمٹ سے خوشحالی کی دیوی کا جلوہ گر ہونا نا ممکنات میں سے ہے ۔


محنت کرنے اور پسینہ بہانے سے میٹھے پانی کا چشمہ صافی مل سکتا ہے 249 امیدوں کے سائے میں بیٹھے بیٹھے سراب آب حیات میں نہیں بدل سکتا . چڑ چڑے چہروں اور تلخ و ترش گفتگوؤں سے گلابوں کی مہک اور دانش کی روشنی سے محروم ذہن قوم کی صحیح سمت مقرر کرنے سے محروم رہتے ہیں .قائداعظم رحمہ اللہ نے مشکل وقت میں تحریک پاکستان برپا کی . ہندو کی چالاکیاں ان کے سامنے تھیں، لیکن انہوں نے جو قدم اٹھا یا، صحیح اور مضبوط اٹھایا .

صبح دوپہر شام پینترے نہیں بدلے . نہ ہی موجودہ سیاست دانوں کی طرح سبزباغ دکھائے۔ پاکستان کے موجودہ سیاست دانوں کی انوکھی شان بان اور آن ہے .بات بات پر دھمکی آمیز بیان اغتے ہیں کہ اگر ایسے نہ ہوا تو پوری قوم کو سڑکوں پر لے آؤں گا . کوئی پوچھے کہ کیا انہوں نے پوری قوم کو اپنی کسی حویلی میں بند کر رکھا ہے کہ جب جی چاہا اسے حویلی سے نکالا اور سڑکوں پر لے آئے۔ .

جلسوں اور دھرنوں میں لگے بندھے چند ہزار مرد و خواتین، بلکہ خواتین و مرد موجود ہوتے ہیں . اس کا مطلب پوری قوم ہرگز نہیں ہوتا . انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ان کے زیر اقتدار صوبے میں بھی ان کی اکثریت کافی پتلی اور کمزور ٹانگوں کے ساتھ کھڑی ہے۔


ایک سیاسی و مذہبی جماعت کے رہنما کو اگر ساتھ دینے کی شرط پر سینٹ کی سیٹ نہ دی ہوتی تو اب تک شاید حق حکمرانی سے فارغ خطی مل چکی ہوتی .عقلمند جانتے ہیں کہ بار بار اگر عوام کو سڑکوں پر لانے میں کوئی کامیاب ہو بھی جائے تو اس عمل کے نتیجے میں معاشی نقصانات برداشت کرنا پڑتے ہیں جو پاکستان جیسے ملک کے لئے کسی بھی طور پر قرین مصلحت نہیں۔2013 ء کے الیکشن میں وزیر اعظم بننے کے خواب کو من پسند تعبیر نہ مل سکی تو مبہم اشارے پر دھرنا دے کر اسلام آباد کی روانی و خوبصورتی کو داغدار کر دیا گیا .

پارلیمنٹ اور اس کے ممبران کو طعن و تشنیع اور گالی گلوچ سے نوازا گیا . اپنی نا پسندیدہ روش سے پارلیمنٹ کے ممبران کو سیسہ پلائی دیوار بنا دیا۔اچھا ہوا دھرنا ختم کرکے گھر کو لوٹے . موجودہ دور کے سیاست دانوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ عوام کے معاشی مسائل کافی بڑھ چکے ہیں .

ہر ایک کے لئے اپنی روزی روٹی کا مسئلہ سر فہرست ہے .انہیں ایسے حکمران اچھے لگتے ہیں جو ملک یا صوبے میں روزگار کے مواقع پیدا کریں اور بڑھائیں . کاروباری طبقے نے نہ صرف کما کر خود کھانا ہے، بلکہ اپنے اداروں میں کام کرنے والے تمام افراد کو کھلانا اور ریونیو کی شکل میں حکومت کو بھی دینا ہوتا ہے، اس لئے سیاست دانوں کی جانب سے ملک میں افرا تفری پیدا کرنا عوام کے مفاد میں ہے نہ ہی کاروباری طبقے کو پسند ہے اور نہ ہی ایسی سرگرمیاں حب الوطنی کے زمرے میں آ تی ہیں

کاروباری طبقہ چاہتا ہے کہ ملک یا صوبے میں امن ہو .بجلی اور گیس میسر رہے . بجلی کی فراہمی کے تمام منصوبے جلد ازجلد مکمل ہوں تاکہ بجلی کی قلت کا شکار رہنے والا پاکستان بجلی ایکسپورٹ کرنے لگے . کاروبار چلتے رہیں . روزگار کے مواقع پیدا ہوتے رہیں .

ملک میں تعمیر و ترقی کے میگا پراجیکٹس پر کام جاری رہے .دہشت گردوں کی کمر ٹوٹے اور بیرون ملک سے کاروباری افراد آتے جاتے رہیں . حکومت عوام کو مہنگائی کے اژدھے سے بچانے کا اہتمام کرتی رہے . ٹرانسپورٹ کے نظام کو جدت آشنا بنایا جاتا رہے .

بڑے شہروں میں صفائی ستھرائی کا نظام و معیار برقرار رہے . ڈینگی جیسے موذی امراض سے نجات کے لئے حکومتی کاوشیں ثمر آور بنتی رہیں ۔

مزید :

کالم -