سیاستدانوں کی طرف سے امتیازی سلوک کی شکایات

سیاستدانوں کی طرف سے امتیازی سلوک کی شکایات کوئی نئی بات نہیں، لیکن اِن دنوں اِن شکایات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
محترمہ بینظیر بھٹو یہ شکایت کرتی رہیں کہ لاڑکانہ کے وزیر اعظم کے ساتھ ایک سلوک جبکہ لاہور کے وزیر اعظم کے ساتھ دوسرا سلوک کیا جاتا ہے۔
یہ بھی کہا جاتا رہا کہ سندھ کے وزیر اعظم کو بحال نہیں کیا گیا، جبکہ پنجاب کے وزیر اعظم کو بحال کردیا جاتا ہے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو اس طرح کی شکایات کرتی رہیں۔ پھر 12اکتوبر1999ء کا واقعہ پیش آیا، جس میں وزیر اعظم نواز شریف کو نکالا گیا تو اِس پر محترمہ کی تسلی نہیں ہوئی اور وہ بدستور امتیازی سلوک کی باتیں کرتی رہیں۔ اس کے بعد طیارہ ہائی جیکنگ کیس میں نواز شریف کو عمر قید کی سزا دی گئی تو پھر بھی امتیازی سلوک کی شکایات ختم نہ ہوئیں۔
اس کے بعد جناب نواز شریف سعودی عرب جلا وطن ہوئے تو امتیازی سلوک کی باتوں میں تیزی آگئی۔ نواز شریف کے مخالفین شاید کسی اور طرح کی توقعات رکھے ہوئے تھے جو پوری نہ ہوئیں۔ شاید وہ یہ چاہتے تھے کہ نواز شریف کا حشر بھی جناب ذوالفقار علی بھٹو جیسا ہونا چاہیے تھا۔
پاناما کیس کے بعد اب نواز شریف کا نیب کی طرف سے احتساب ہو رہا ہے تو پھر شکایات کا سلسلہ زور و شور سے شروع ہوچکا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ نواز شریف کا وی آئی پی احتساب ہورہا ہے۔
جناب بلاول بھٹو نے فرمایا ہے کہ اس ملک میں دو قانون ہیں۔ نواز شریف کے لئے اور جبکہ شرجیل میمن کے لئے دوسرا قانون ہے۔ پیپلز پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات چودھری منظور فرماتے ہیں کہ مریم نواز ملکہ کی طرح ریڈ کارپٹ پر احتساب عدالت آتی ہیں۔ احتساب عدالت اختیار نہ ہونے کے باوجود کیپٹن صفدر کی ضمانت لے لیتی ہے۔ حالانکہ عدالت نے کیپٹن صفدر کے وارنٹ گرفتاری صرف عدالت میں پیش کرنے کی حدتک جاری کئے تھے وہ کہتے ہیں کہ اس ملک میں شریف خاندان برہمن ہے اور باقی شودر۔ دوسری طرف نون لیگ والے شکایات کرتے ہیں کہ عمران خان انوکھا لاڈلا ہے۔
اُس کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی۔ عمران خان اور جہانگیر ترین کے مقدمے میں حنیف عباسی کے وکیل فرماتے ہیں کہ ہمارا مقدمہ اسی طرح سُنا جانا چاہیے تھا، جیسے پانامہ کیس سُنا گیا تھا۔
تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن میں درخواست دی ہے کہ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کو فارن فنڈنگ والی پارٹی قرار دیا جائے۔ جناب عمران خان کا کہنا ہے کہ اگر نواز لیگ کو این آر او دیا گیا تو وہ عوام کو سڑکوں پر نکالیں گے۔
کراچی کی بات کریں تو ایم کیو ایم پاکستان کہتی ہے کہ اُس کے ساتھ امتیازی سلوک ہورہا ہے اور اُسی پارٹی کے دوسرے دھڑے کو ترجیح دی جارہی ہے۔ یہ ہمارے اُن سیاستدانوں کی شکایات ہیں جو اِس قوم کے لیڈر ہیں، جنہوں نے ملک کی قیادت سنبھالنی ہے۔
اِن سیاستدانوں نے نوجوان نسل کی رہنمائی کرنی ہے۔ انہیں سیدھا راستہ دکھانا ہے۔ جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے۔ پاکستان کا وقار بلند کرنا ہے اور بیرونِ ملک پاکستانی پاسپورٹ کی عزت کروانی ہے، اگر کسی لیڈر کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے تو وہ مجوزہ قوانین کی حدود میں رہتے ہوئے، اس زیادتی کا ذکر کرے تو یہ بات تو قابلِ قبول ہوسکتی ہے، کیونکہ جس کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے، اُس کے اظہار پر تو پابندی نہیں لگائی جاسکتی ہے، لیکن یہ کیا بات ہوئی کہ آپ بچوں کی طرح گلے شکوے شروع کردیں کہ اُس کو ایک تھپڑ مارا گیا تھا تو مجھے دو تھپڑ کیوں رسید کئے گئے ہیں، اگر مجھے ایک تھپڑ مارا گیا ہے تو دوسرے کو بھی مارا جائے۔
یہ لیڈروں کا شیوہ نہیں ہے۔ لیڈروں کے کردار اور رویوں کا قوم کی نفسیات پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ عوام لیڈروں کی بہت سی باتوں کی تقلید کرتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں لڑکوں میں لمبے بال رکھنے کا رواج شروع ہوگیا، وجہ یہ تھی کہ بھٹو صاحب گردن کے پچھلے حصے پر لمبے بال رکھتے تھے۔
اِسی طرح ہمارے ہاں دھرنے دینے کا رواج بہت کم تھا، بلکہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ دھرنا دینے میں پہل تو جماعت اسلامی نے کی تھی، لیکن جناب عمران خان صاحب نے دھرنا کلچر کو ایک نئی جہت سے ہمکنار کیا۔ دھرنے میں موسیقی کو متعارف کرایا اور احتجاج کے ساتھ ساتھ تفریح کو بھی دھرنے کا حصہ بنایا۔
اِس وجہ سے دھرنے دینے والوں کے لئے سہولت پیدا ہوئی اور تحریک انصاف نے تاریخ کا طویل ترین دھرنا دیا۔ اس دھرنے کے بعد آپ دیکھتے ہیں کہ آئے روز دھرنے دیئے جانے لگے ہیں۔
سڑکیں بند ہوتی ہیں اور جس کا جدھر دل چاہے دھرنا دینا شروع کردیتا ہے، اب اگر ہمارے لیڈر امتیازی سلوک کا شور مچاتے رہیں گے تو عوام بھی اسی ڈگر پر چل نکلیں گے اور معاشرتی مسائل پیدا ہوں گے۔ حسد، کینے کو فروغ ملے گا اور معاشرتی ہم آہنگی میں کمی واقع ہوگی۔
ہمارے معاشرے میں جس کو بھی دیکھو یہی رونا روئے گا کہ وہ آگے نکل گیا، میں پیچھے رہ گیا ہوں۔ اُس کو کیا سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں، اب تو گناہ گار یہ بھی کہنے لگے ہیں کہ اگر ہمیں جیل میں ڈالا گیا تو بے گناہ کو بھی جیل میں ڈالنا چاہیے۔
سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کیا جارہا ہے، مقام افسوس ہے کہ ہمارے قد آور لیڈر اتنی بھی اخلاقی جرأت کا مظاہرہ نہیں کرپاتے کہ سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہہ سکیں، اگر کسی کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، لیکن وہ آپ کا مخالف ہے تو سب اچھا ہے، جس قوم کے لیڈر سچ بولتے وقت اپنے مفاد کو ملحوظ خاطر رکھیں تو قوم اُن سے کیا توقعات وابستہ کرسکتی ہے۔
جو لیڈر سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ نہ کہے کیا وہ صادق اور امین ہے؟ جس طرح ہمارے لیڈر بچوں کی طرح ایک دوسرے کے خلاف شکایات لگاتے ہیں اور امتیازی سلوک کا رونا روتے ہیں تو اُن کے اِس رویے کو دیکھتے ہوئے ایک کہاوت یاد آتی ہے جو مختلف لوگ مختلف طریقوں سے بیان کرتے ہیں، لیکن مقصد ایک ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ نے عوام کو سیدھا کرنے کے لئے حکم دیا تھا کہ ہر شہری کو صبح سویرے دس جوتے مارے جائیں۔
کہتے ہیں کہ شہریوں نے بادشاہ کے پاس شکایات لگانی شروع کردیں کہ فلاں کو کم جوتے پڑے ہیں اور فلاں کو کھڑا کرکے لگائے گئے اور فلاں کو بٹھا کر جوتے لگائے گئے ہیں۔ بادشاہ نے اِن شکایات پر کیا فیصلہ کیا، حکایت میں اِس بات کا ذکر نہیں، لیکن یقیناً اچھا فیصلہ نہیں ہوگا۔ اب دیکھیں ہمارے سیاستدانوں کی شکایات پر کیا فیصلہ ہوتا ہے؟