این آر او مانگنے والوں کے نام سامنے لائیں
وزیراعظم عمران خان نے کرپشن کے خاتمے اور کرپٹ افراد کے کڑے احتساب کا ایک بار پھر اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ لوگ جتنا چاہیں شور مچا لیں،جو مرضی کر لیں احتساب ضرور ہو گا، کان کھول کر سُن لیں کسی کو این آر او نہیں ملے گا، بعض جماعتیں احتساب کا عمل رکوانے کے لئے دباؤ ڈال رہی ہیں،لیکن ہم کسی بلیک میلنگ میں نہیں آئیں گے،کسی کرپٹ شخص کو نہیں چھوڑوں گا، عوام سے وعدہ کیا ہے کہ کرپٹ افراد کو جیلوں میں ڈالوں گا، قوم سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سعودی عرب سے ’’زبردست پیکیج‘‘ مل گیا ہے، مزید دو دوست ممالک سے بھی بات چیت چل رہی ہے، قوم کو جلد ’’مزید خوشخبری‘‘ سناؤں گا۔پاکستان جلد قرض لینے کی بجائے قرض دینے والے ممالک میں شامل ہو جائے گا۔انہوں نے کہا کہ ہمیں وہ قرضے واپس کرنے ہیں جو ہم سے پہلے کی حکومتوں نے لئے تھے۔ اگر وہ قسطیں واپس نہ کرتے تو مُلک ڈیفالٹ کر جاتا، آئی ایم ایف ایسی شرائط لگا دیتا ہے، جس سے عوام کو تکلیف پہنچتی ہیں۔وزیراعظم عمران خان نے اقتدار سنبھالتے ہی،بلکہ اقتدار کی امید پیدا ہوتے ہی واشگاف اعلان کر دیا تھا کہ کسی کو این آر او نہیں دیا جائے گا، نہ کسی کرپٹ شخص کو چھوڑوں گا، یہ باتیں انہوں نے مختلف مواقع پر اتنی بار کی ہیں کہ قوم اِن پر ایمان لے آئی ہے،لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہر چند روز بعد اِس اعلان کے اعادے کی ضرورت کیوں پیش آ جاتی ہے،ممکن ہے وہ اپنی کہی ہوئی بات پر لوگوں کے اعتقاد کو پختہ تر کرنے کے لئے اِس کا اعادہ کرنا ضروری سمجھتے ہوں،لیکن این آر او کے بارے میں چند گزارشات کرنا ضروری ہے۔آخری اور معروف این آر او سابق صدر جنرل پرویز مشرف اور پیپلزپارٹی کے درمیان ہوا تھا،جس کا مسودہ اعلیٰ حکام لے کر کئی بار دبئی میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے پاس جاتے رہے، پھر اِس مسودے پر جنرل پرویز مشرف اور متعلقہ حکام مزید غور کرتے، این آر او میں اُس وقت کی امریکی وزیر خارجہ کونڈو لیزا رائس کا بھی بڑا کردار تھا۔ بہرحال بہت سی ملاقاتوں کے بعد این آر او ہوا، جس سے کم و بیش آٹھ ہزار افراد مستفید ہوئے، کیونکہ یہ جس عرصے پر محیط تھا اس میں سرزد ہونے والے جرائم پر معافی دی گئی تھی۔
ان جرائم کی نوعیت بڑی متنوع تھی اور مالی جرائم کے ساتھ ساتھ فوجداری جرائم کرنے والوں نے بھی فائدہ اُٹھایا، جن میں قتل و غارت گری، اغوا، آتش زدگی، بھتہ خوری جیسے جرائم شامل تھے۔ پیپلز پارٹی کے علاوہ اِس این آر او سے ایم کیو ایم کو بھی بہت فائدہ پہنچا، یہ حُسنِ اتفاق ہے کہ ایم کیو ایم اِس وقت عمران خان کی مخلوط حکومت میں شامل ہے، پورے مشرف دور میں بھی وہ شریکِ اقتدار رہی،لیکن جب یہ معاملہ مُلک کی اعلیٰ ترین عدالت میں پہنچا تو فیصلہ یہ آیا کہ یہ قانون اِس طرح ختم کیا جاتا ہے جیسے یہ بنایا ہی نہ گیا ہو۔اگرچہ اس سے فائدہ اُٹھانے والے فائدہ اُٹھا کر اِدھر اُدھر ہو گئے تھے۔عدالت نے یہ حکم بھی دیا تھا کہ آصف علی زرداری کے خلاف سوئس کیس کھولنے کے لئے سوئس حکام کو خط لکھا جائے،لیکن اُس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ آصف علی زرداری چونکہ صدر بن گئے ہیں،اِس لئے اُنہیں آئینی استثنا حاصل ہو گیا ہے اِس لئے سوئس حکام کو خط نہیں لکھا جا سکتا، عدالتی حکم کے باوجود یوسف رضا گیلانی نے خط نہ لکھا اور توہینِ عدالت کے الزام میں برطرف ہو گئے، ان کے جانشین راجہ پرویز اشرف نے خط تو لکھ دیا،لیکن سوئس حکام نے اس پر کیا کارروائی کی اور آصف علی زرداری کا صدارتی استثنا ختم ہونے کے باوجود ان کے خلاف سوئس حکام نے کوئی کارروائی کی یا نہیں، یا اِس وقت اس معاملے کی کیا پوزیشن ہے،اِس بارے میں کچھ معلوم نہیں ہو سکا،یہ تو پرانے این آر او کا حال ہے،اب حکومت سے کون این آر او مانگ رہا ہے اُس کا نام تو سامنے لایا جائے۔ویسے بھی اگر کوئی این آر او مانگ رہا ہے تو اُسے قانونی پوزیشن تو معلوم ہی ہو گی، ایسے میں کوئی احمق ہی کسی این آر او کی امید رکھ سکتا ہے۔وزیراعظم عمران خان کا یہ عزم صمیم تو مبارک ہے کہ وہ کرپٹ افراد کو نہیں چھوڑیں گے،لیکن اب تک شاید ایک بھی کرپٹ سیاسی شخص اُن کے دور میں جیل نہیں گیا،جو گئے اُن پر کرپشن کے نہیں دوسرے الزام تھے،کرپشن کے خلاف کارروائی کرنے والے مُلک کے سب سے بڑے ادارے نیب کے بارے میں ابھی دو روز پہلے ہی سپریم کورٹ نے یہ ریمارکس دیئے ہیں کہ نیب کچھ مقدمات میں پورا زور لگا دیتا ہے اور کچھ کو پوچھتا بھی نہیں،(بلوچستان کے سابق چیف سیکرٹری) رئیسانی کے گھر سے اربوں نکلنے کے بعد پلی بارگین کے لئے اس کے پیچھے پڑ گیا، نیب کے بڑوں پر مقدمہ بننا چاہئے۔ سپریم کورٹ نے اپنے ریمارکس میں یہ تک کہا، کوئی کیس بتائیں جہاں ریکوری کی گئی، یہ تو نیب کے بارے میں سپریم کورٹ کا سرٹیفکیٹ ہے۔سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں جو 200ارب ڈالر پڑے بتائے جاتے تھے، اُنہیں واپس لانے کی بات ایک زمانے میں اسحاق ڈار نے کی تھی، وہ واپس لاتے لاتے خود راندۂ درگاہ ہو گئے اور اب پاسپورٹ کے بغیر لندن میں رہ رہے ہیں۔ موجودہ وزیر خزانہ اسد عمر نے تو کہہ دیا ہے کہ200ارب ڈالر واپس لانے کی بات بس یوں ہی تھی، شاید یہ بھی 35پنکچر جیسا معاملہ نکلے۔
سابق حکومتوں نے کتنے قرضے لئے وہ جن مقاصد کے لئے حاصل کئے گئے تھے اُن پر خرچ ہوئے یا نہیں اور اگر نہیں خرچ ہوئے تو پھر کہاں چلے گئے۔یہ سب تفصیلات اگر عمران خان کو معلوم ہو جائیں تو مہربانی کر کے قوم کو بھی بتا دیں،لیکن اس میں چونکہ کچھ پردہ نشینوں کے نام آئیں گے اِس لئے وہ بتانا پسند نہیں کریں گے۔انہوں نے قرضوں کی واپسی کی جو بات کی ہے وہ تو ظاہر ہے اب اُن کی ذمے داری ہے،سابق حکومتوں نے جو قرضے لئے وہ عشروں پر محیط ہیں اور اُن کا آغاز 1958ء سے ہوا تھا اِس سے پہلے اُن سیاست دانوں کے دور میں کوئی غیر ملکی قرضہ نہیں تھا (اگر تھا تو بہت معمولی) جنہیں آج بھی گالیاں دی جاتی ہیں،انہی سیاست دانوں میں ایک وہ بھی تھا، جس نے گوادر کو باقاعدہ خرید کر پاکستان کا حصہ بنایا، گویا انہوں نے پاکستان کا حدود اربعہ وسیع کیا۔ قیام پاکستان کے بعد یہ اعزاز اگر کسی دوسرے شخص کو حاصل ہوا ہو تو براہِ کرم اس کا نام بتایا جائے۔مسلم لیگ(ن) کی حکومت31مئی کو ختم ہوئی اُس وقت مُلک کے زرمبادلہ کے ذخائر 16ارب ڈالر سے زیادہ تھے اور ڈالر کی قیمت 105روپے کے لگ بھگ تھی، خرابی کب اور کہاں شروع ہوئی اِس کا حساب بھی وزیراعظم ساتھ ہی ساتھ کر لیں تو اچھا ہو گا،جہاں تک قرضوں کی واپسی کا تعلق ہے وہ جس حکومت نے بھی لئے ہوں وہ واپس مُلک کو ہی کرنے پڑتے ہیں۔آج عمران خان کے دور میں جو قرضے لئے جائیں گے(اور یقیناًلئے جائیں گے) کیا آنے والی کوئی حکومت ان قرضوں سے لاتعلقی کا اعلان کر دے گی اُسے بھی یہ قرضے اُسی طرح واپس کرنے ہوں گے،جس طرح عمران خان اپنے سے پہلے والے حکمرانوں کے قرضے واپس کر رہے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ آئندہ جو بھی حکمران ہو گا وہ بھی یہی کہہ رہا ہو گا کہ سابق حکمرانوں نے مُلک پر قرضہ چڑھا دیا اور ہمیں واپس کرنا پڑ رہا ہے۔