انسانی اسمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 1
یہ رات تین بجے کا وقت تھا جب میں کوالالمپور کے علاقہ مسجد جامک سے گزر رہا تھا۔مسجد جامک کے ریلوے اسٹیشن کی سیڑھیوں پر تقریباََ 10نوجوان کسمپرسی کی حالت میں بیٹھے اپنی قسمت پر نوحہ خوانی کر رہے تھے۔میں نے قریب جا کر ان سے رات گئے سیڑھیوں پر بیٹھنے کا سبب دریافت کیا تو ان سب کی ایک ہی کہانی تھی ۔وہ کہانی یہ تھی کہ انہیں ایجنٹ بہلا پھسلا کر ملائیشیاء میں لے آئے ہیں اور یہاں لاکر انہیں بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا ہے۔یہ لوگ پاکستان ،بھارت اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھتے تھے ۔ یہ غریب گھرانوں کے افراد سہانے مستقبل کی امید پر ایجنٹ حضرات کی درندگی کا شکار ہوئے تھے ۔مجھے یاد ہے جب میں نے ان تمام افراد کو تیس تیس رنگٹ دیے تو ان میں سے اکثرآبدیدہ آنکھوں کے ساتھ اپنی اس حالت پر اشکبار تھے ۔اسی طرح جب میں عمان کے دارالحکومت مسقط میں پاکستانی ایمبیسی گیا تو وہاں گیٹ کے باہر پاکستانیوں کی طویل قطار نے مجھے حیرت میں مبتلا کر دیا ۔
میرے استفسار پر پتہ چلا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ایجنٹ حضرات پاکستان سے کشتیوں کے زریعے مسقط لائے تھے چونکہ اب یہ افراد واپس پاکستان جانا چاہتے ہیں لہذا یہاں پاسپورٹ بنوانے کیلئے آئے ہیں۔ مجھے متعدد ممالک میں جانے کا اتفاق ہوا ہے ہر جگہ پر تارکین وطن کسی نہ کسی صورت میں انسانی اسگلروں کی وارداتوں کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب مجھے سعودی عرب،تھائی لینڈ،دوبئی،چائنہ،مسقط،ازبکستان اورسری لنکا جانے کا موقع میسر آیا تو میں نے وہاں کے سرکاری اداروں سے اس موضوع پر بہت سیر حاصل گفتگو کی اورکافی مواد حاصل کیا۔دوبئی میں مجھے نائٹ کلبوں میں کام کرنے والی خواتین سے بھی انٹرویو کرنے کا موقع میسر آیا ۔صحافی کارکن ہونے کے سبب میں نے یہ خیال کیا کہ تمام معلومات کو یکجا کر کے ایک ایسی کتاب تحریر کر دی جائے جو عام افراد کیلئے آگہی کا باعث بنے ۔
یہ کہنے میں حرج نہیں کہ کرہ ارض جسے حضرت انسان نے مختلف بر اعظموں میں منقسم کر رکھا ہے اپنے اندر متعدد کائناتوں کے وجود کی حامل ہے۔معاشرتی اور جغرافیائی تقسیم کی بنیاد پر ہر ملک اور ریاست نے اپنی سہولتوں اور ضرورتوں کے پیش نظر مختلف قوانین متعارف کرا رکھے ہیں۔ایک ملک سے دوسرے ملک میں داخل ہونے کیلئے مختلف قوانین رائج ہیں یہ قوانین دونوں ممالک نے اپنی داخلی اور خارجی پالیسیوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے مرتب کئے ہوتے ہیں۔بین الاقوامی سفر کرنے والے مسافروں کو ان قوانین سے متعلق آگاہی حاصل کرنا ناگزیر ہوتا ہے جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ تھرڈ ورلڈ کنٹریز (تیسری دنیا کے ممالک)کے شہری جو فرسٹ ورلڈ کنٹریز(پہلی دنیا کے مماک)کاسفر کرنے کی شدید خواہش رکھتے ہیں ان قوانین کے معیار پر پورا نہیں اترتے ۔لہذا وہ مالی کسمپرسی کے سبب پنپنے والی اس خواہش کی تکمیل کیلئے ایجنٹوں کا سہارا لیتے ہیں اور یہیں سے انسانی اسمگلنگ کی ایک صورت وجود میں آتی ہے ۔ یہ ایجنٹ لوگ بوگس اور جعلی کاغذات کی تیاری کی مدد سے اپنے اور دوسرے ملک کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور بعض مرتبہ بری راستوں سے سرحد عبور کرنے جیسے خطرناک عمل سے بھی گزرتے ہیں ۔چونکہ ایجنٹ حضرات کیلئے یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے لہذا ایجنٹ زیادہ سے زیادہ منافع کے حصول کیلئے ایسے تمام لوگوں کو اپنے دام فریب میں پھانسنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جو اپنی مالی بد حالی کے سد باب کے شدید خواہشمند ہوتے ہیں ۔ایسے افراد میں بچے،عورتیں اور نوجوان شامل ہیں۔
انسانی سمگلنگ کی بین الاقوامی تشریح کے مطابق انسانی اسمگلنگ کا مطلب منافع کی غرض سے کسی شخص کا جنسی استحصال کرنے، غلام رکھنے، جبری مشقت یا جبری شادی کرنے کے مقصد کے لئے انسانوں کی غیر قانونی تجارت لیا جاتا ہے۔ انسانی سمگلنگ اس وقت دنیا میں منشیات کی اسمگلنگ کے بعد دوسری بڑی غیر قانونی منافع بخش انڈسٹری بن چکی ہے جس سے اربوں ڈالر کمائے جاتے ہیں۔ 2004ء میں اس کے ذریعے 5 بلین امریکی ڈالر منافع کمایا گیا جبکہ 2008ء میں یہ منافع 31.3 بلین امریکی ڈالر تک پہنچ چکا تھا۔ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن کے مطابق ہر سال 25 لاکھ افرادمختلف ممالک میں سمگلنگ کے عمل سے گزرتے ہیں۔ان 25لاکھ افراد کو مختلف مقاصد کے تحت مختلف ممالک میں اسمگل کیا جاتا ہے ۔ اسمگل ہونے والے افراد کا متعدد طریقوں سے استحصال کیا جاتا ہے جس میں جبری مشقت،خواتین اور بچوں کو ان کے مرضی کے خلاف جنسی عمل کا حصہ بنانا،غریب ممالک سے کم عمر لڑکیوں کو شادی کی غرض سے امیر ممالک میں پہنچانا،متحدہ عرب امارات میں کم سن بچوں کو لیجا کر ان سے جنسی زیادتی کرنے سمیت اونٹ ریس جیسے گھناونے کھیل کا حصہ بنانا،تیسری دنیا کے ممالک کی نوجوان لڑکیوں کو امیر ممالک میں لیجا کر انہیں سیکس انڈسٹری جیسے قبیح کاروبار میں شامل کرنااور ایشیائی ممالک سے نوجوان مردوں کو یورپی ممالک میں لیجا کر ان سے جبری مشقت لینا شامل ہیں ۔اب آئیے ان اسباب پر غور کرتے ہیں کہ جو انسانی اسمگلنگ کا محرک بنتی ہیں
دنیا کی معاشی و جغرافیائی تقسیم
آج جس دنیا میں ہم رہ رہے ہیں یہ 29 فیصد زمین کے حصے پر محیط ہے جبکہ باقی 71 فیصد حصہ پانی سے ڈھکا ہوا ہے۔ اسے پہلے معاشی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا، جس کو شمال اور جنوب کی دنیا کہا جاتا تھا۔ پھر اسے تین حصوں میں تقسیم کیا گیا اور ہر ملک کی سالانہ آمدن کو اس کی آبادی پر تقسیم کر کے فی کس آمدن کا حساب لگایا گیا۔ اس کو انگریزی میں جی ڈی پی (GDP) کہا جاتا ہے ۔فی کس آمدنی زیادہ حاصل کرنے والے ممالک پہلی دنیا (First world) اوراس سے کم فی کس آمدنی والے ممالک دوسری دنیا کہلاتے ہیں ۔سب سے کم فی کس آمدن والے ممالک یعنی جن کو غریب ممالک کہا جاتا ہے تیسری دنیا کہلاتی ہے۔ واضح رہے کہ یہ ضروری نہیں کہ ایسے ممالک جو معاشی طور پر مستحکم ہوں وہ دنیا کے ایک ہی خطے یا براعظم میں پائے جاتے ہوں۔ اس کے علاوہ دنیا کو جغرافیائی طور پر سات حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور ہر حصے کو بر اعظم کہا جاتا ہے۔ اس تقسیم کو اگرچہ ابھی تک حتمی درجہ حاصل نہیں ہوا لیکن روزمرہ بول چال اور تقریر و تحریر میں یہ تقسیم ہی مستعمل ہے ۔اس وقت دنیا میں سات ارب سے زیادہ انسان موجود ہیں۔ ان کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے اور شرح پیدائش شرح اموات سے کہیں زیادہ ہے۔
دنیا کی تقسیم کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو اس کا خشکی کا حصہ چھ بڑے اور آٹھ چھوٹے حصوں میں منقسم ہے ۔اس وقت ان خطوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔ براعظم ایشیا، براعظم یورپ، براعظم افریقہ، براعظم جنوبی امریکہ، براعظم شمالی امریکہ، اوربراعظم آسٹریلیا۔ ایک نیا براعظم بھی دریافت کیا گیا ہے جسے ماہرین تسلیم کرنے میں پس و پیش سے کام لے رہے ہیں۔ اس براعظم کو انٹارکٹیکا کا نام دیا گیا ہے ۔ہمارا موضوع پہلے چھ براعظموں تک محدود ہے جہاں سے انسان ایک سے دوسرے براعظم یا ایک ملک سے دوسرے ملک ہجرت کرتے ہیں ۔یہ ہجرت یا ترک وطن کا عمل قانونی ہے یا غیر قانونی اس کا جائزہ اس کتاب میں لیا گیا ہے۔ ایک ملک سے دوسرے ملک یا درون ملک انسانوں کی سمگلنگ کے حوالے بھی اس کتاب میں اعدادو شمار دیئے گئے ہیں ۔
جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ پوری دنیا کے معاشی جغرافیے کو پہلے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا اس تقسیم کا جائزہ لیا جائے تو دنیا میں پائی جانے والی غربت کے اسباب کھل کر سامنے آ جاتے ہیں۔ مثلاً شمال کی دنیا امیر دنیا ہے جبکہ جنوب میں غربت نے پنجے گاڑھے ہوئے ہیں۔ اس تقسیم کے مطابق شمال میں دنیا کی آبادی کا صرف 1/4 حصہ رہتا ہے ۔یہ دنیا کی کل آمدن کے 4/5 حصے کا مالک ہے ۔یہاں رہنے والوں کی اوسط عمر 70 سال کے قریب ہے ۔شمال میں اتنی خوراک پیدا ہوتی ہے کہ اس کی بڑی مقدار ہر سال ضائع کرنا پڑتی ہے۔ یہاں دنیا بھر کی صنعتوں کا 90 فیصد حصہ لگا ہوا ہے۔ ان ممالک کی آبادی کم از کم ہائر سیکنڈری اسکول تک تعلیم یافتہ ہے۔ دنیا بھر میں سائنسی تحقیق اور انسانی ترقی پر ہونے والے اخراجات کا 96 فیصد حصہ شمال میں خرچ ہوتا ہے۔ شمال کے تجارتی ادارے اور کمپنیاں دنیا بھر کی تجارت اور معاشی نظام پر چھائے ہوئے ہیں۔ یہاں کی ملٹی نیشنل کمپنیاں دنیا کے سرمائے کے 1/3 حصے پر قابض ہیں۔ اس کے برعکس جنوب میں دنیا کی آبادی کا 3/4 حصہ آباد ہے لیکن اسے دنیا کی آمدنی کا صرف 1/5 حصہ ملتا ہے۔ یہاں لوگوں کی اوسط عمر 50 سال ہے۔ جنوب میں غریب ترین ممالک میں پیدا ہونے والے بچوں میں سے 1/4 پانچ سال کی عمر سے پہلے ہی خوراک اور ادویات کی کمی کے سبب مر جاتے ہیں۔ جنوب کی آبادی کا چوتھا حصہ بھوک اور افلاس کا شکار ہے۔ آدھی سے زیادہ آبادی ان پڑھ ہے۔ بعض ممالک میں ناخواندگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دنیا بھر میں جتنے غریب افراد ہیں ان کا 2/3 حصہ بنگلہ دیش، بھارت، پاکستان اور انڈونیشیا میں پایا جاتا ہے۔ جنوب جس میں تیسری دنیا کے ممالک پائے جاتے ہیں شمال کے ممالک کے لیے خام مال پیدا کرتے ہیں۔ لیکن خود یہ اربوں ڈالرز کے قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ جنوب میں زیادہ ریاستوں پر فوجی قابض ہیں جو شمال کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں ۔
یورپ و امریکہ ہر سال غلے کی ایک بڑی مقدار کو ضائع کر دیتا ہے تاکہ عالمی منڈی میں اس کی قیمت گرنے نہ پائے یا غریب لوگوں تک خوراک سستے داموں نہ پہنچ سکے۔ ہر سال کسانوں کو لاکھوں ڈالرز اور پونڈز محض اس لیے دیئے جاتے ہیں کہ وہ اپنی فصل کاشت نہ کریں۔ جبکہ تیسری دنیا کے ممالک میں قدرتی وسائل اور معدنیات کی فراوانی کے باوجود بھوک نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اور عوام امیر ملکوں کی طرف رخ کر رہے ہیں ۔ مثلاً براعظم افریقہ کے 26 فیصد حصے پر فصلیں اگائی جا سکتی ہیں لیکن فی الحال صرف 6 فیصد حصے کو زیر کاشت لایا جا رہا ہے۔ اسی طرح بنگلہ دیش کو بھی ماضی میں غریب ترین ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا جبکہ یہاں دنیا کے سب سے بڑے مچھلی کے ذخیرے قائم کیے جا سکتے ہیں اور یہ بہت ہی سرسبز و شاداب ملک ہے۔ اسی طرح میکسیکو دنیا بھر کی چاندی کا 14 فیصد حصہ پیدا کرتا ہے۔ پیرو دنیا کی چاندی کا تقریباً 13 فیصد ا ور 8.7 فیصد زنک پیدا کرتا ہے۔ برازیل میں دنیا کے خام لوہے کا 13 فیصد حصہ اور بولویا میں ٹین کا 12 فیصد جبکہ انٹی مونی کا 26 فیصد حصہ تیار کیا جاتا ہے۔ چلی تانبہ کا 13 فیصد، زائرے میں کو بالٹ کا پچاس فیصد تانبا کا 6 فیصد اور ہیرے جواہرات کا 25 فیصد حصہ پایا جاتا ہے۔ بوسٹوانا قیمتی اور صنعتی جواہرات کا 22 فیصد حصہ اپنے اندر رکھتا ہے۔ زمبیا میں کوبالٹ کا 14 فیصد اور تانبے کا 7 فیصد حصہ پایا جاتا ہے۔ انگولا میں ہیرے جواہرات کا 10 فیصد حصہ پایا جاتا ہے۔ الغرض پورا افریقہ معدنیات کی دولت سے مالا مال ہے۔ ایشیاء میں بھی متعدد اشیاایسی پائی جاتی ہیں جن کی یورپ کو شدید ضرورت ہوتی ہے۔ ملائیشیا میں دنیا کے ٹین کا 24 فیصد حصہ اور انڈونیشیا میں 14 فیصد پایا جاتا ہے۔ تھائی لینڈ ٹین کا 13 فیصد حصہ پیدا کرتا ہے۔ دیگر اشیاء میں چائے، کپاس، تیل، ربڑ، لکڑی وغیرہ تیسری دنیا سے مغرب کے امیر ممالک کو بھیجی جاتی ہیں۔ دراصل غریب ممالک اپنی پیداوار سے امیر ملکوں کی خوشحالی قائم رکھے ہوئے ہیں۔ امیر ممالک دنیا کے وسائل کا 80 فیصد حصہ ہڑپ کر جاتے ہیں۔ اگر ہر خطے اور ملک کا حال یوں ہی لکھا جائے تو اس کے لیے الگ کتاب درکار ہو گی۔ لہٰذا چند ایک مثالیں ضبط تحریر میں لائی گئی ہیں تاکہ قارئین کو اصل مسئلہ سمجھنے میں آسانی رہے۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)