فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر545
مغربی فنکار ہماری اخلاقی اور مذہبی قدروں پر مطلق پورے نہیں اترتے لیکن انسانوں سے ہمدردی، محبت اور ان کے دکھوں کو دور کرنے کا جذبہ ان میں شدت سے موجود ہے۔ ہمارے خیال میں وہ گناہوں کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں اور روز بروز دھنستے ہی جا رہے ہیں لیکن ان کی نیکیوں سے مفر ممکن نہیں ہے۔ اس کی ایک مثال الزبتھ ٹیلر بھی ہیں۔
الزبتھ ٹیلر نے زندگی میں وہ سب کچھ کیا جسے ہم ’’نگاہ کبیرہ‘‘ قرار دیتے ہیں مگر وہ نیکی کے کاموں میں مصروف رہیں۔ اب اپنی باقی ماندہ زندگی انہوں نے خدمت خلق کے لیے ہی وقف کر دیا ہے ۔ ہمارے محاورے کے مطابق یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ’’نو سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی‘‘ چوہوں کی گنتی تو مشکل ہے لیکن
دل بدست آور کہ حج اکبر است
کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو گناہوں کے ساتھ ساتھ انہوں نے نیکیاں بھی سمیٹی ہیں۔
الزبتھ ٹیلر نے دنیا میں جو چاہا حاصل کر لیا۔ انہیں جوانی کے زمانے میں دنیا کی حسین ترین عورت کہا جاتا تھا اور یہ کچھ غلط بھی نہ تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ الزبتھ ٹیلر فلموں میں کیمرے کی نظر سے جتنی حسین نظر آتی ہیں ذاتی زندگی میں اس سے کہیں زیادہ حسین اور دلکش ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں نے فرصت میں بیٹھ کر انہیں بنایا ہے۔ اپنے اسی حسن و جمال اور رعنائی و کشش کے باعث انہوں نے ایک عالم کو اپنا گرویدہ کیے رکھا۔ ایک طویل عرصے تک وہ محض اپنی خوب صورتی کے سہارے ہالی ووڈکی سپر اسٹار کہلاتی رہیں۔ ان کی اداکاری میں پختگی تو بہت بعد میں پیدا ہوئی۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اداکاری کے گر انہیں ان کے ’’دوبار شوہر‘‘ رچرڈ برٹن نے سکھائے تھے۔
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر544پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
رچرڈ برٹن بذات خود اسٹیج اور فلم کے بے بہا اداکار تھے ان کے ساتھ منسوب ہونے کے بعد الزبتھ ٹیلر کی اداکاری میں نکھار پیدا ہوگیا اور وہ صحیح معنوں میں اسٹار کے بجائے اداکارہ بن گئیں۔ انہوں نے اپنی اداکاری کے اختتامی دور میں آسکر ایوارڈ حاصل کئے اور نقادوں سے یہ منوا لیا کہ وہ واقعی اداکارہ بن گئی ہیں۔
الزبتھ ٹیلر کی۳۵ سال کم عمر کے شوہر سے شادی غالباً ان کا آخری تجربہ تھا۔ اب تو انہوں نے پچھلے دنوں خود اعلان کر دیا ہے کہ اب میں شادی نہیں کروں گی۔ رہی دوستی تو ان کے ایک دو انتہائی قریبی دوست آج بھی ان کے ہم جلیس نظر آتے ہیں۔ تنہائی کے مارے ہوئے مغربی معاشرے میں اس کے بغیر چارہ بھی نہیں ہے۔ سوشل سسٹم چاہے جتنابھی بدل جائے انسانی فطرت میں تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ انسان ایک ’’حیوان مجلسی‘‘ ہے۔ یہ بالکل تنہا زندگی بسرنہیں کرسکتا۔ اب ان کی زندگی کا صرف ایک مقصد اور واحد مشن ’’ایڈز‘‘ کے خلاف جنگ ہے۔ وہ صرف اسی مقصد کے لیے تقریبات میں شرکت کے لیے گھر سے باہر نکلتی ہیں اور ایڈز کے موضوع پر تقاریر کرتی رہتی ہیں۔ اپنی گرہ سے بھی دیتی ہیں اور مختلف طریقوں سے چندہ بھی جمع کرتی ہیں۔ ’’ایڈز‘‘ کے لیے ریسرچ کے سلسلے میں انہوں نے ایک ادارہ قائم کیا ہے۔ اس کے علاوہ ’’الزبتھ ٹیلر ایڈز فاؤنڈیشن‘‘ بھی موجود ہے۔ اس ادارے کے ذریعے وہ اب تک دنیا ھر میں کروڑوں اربوں ڈالر تقسیم کر چکی ہیں۔ پچھلے دنوں خبر آئی تھی کہ ’’ایڈز‘‘ کے خلاف ایک موثر علاج دریافت کرلیاگیا ہے۔ آئندہ تین برس میں ’’ایڈز‘‘ کی موثر اور کارگر دوائی بازاروں میں دستیاب ہونے لگے گی۔ اگر ایسا ہوا اور خدا کرے کہ ایسا ہو جائے تو اس میں ہالی ووڈ کی ایک ہیروئن الزبتھ ٹیلر کا بھی حصہ ہوگا۔
الزبتھ ٹیلر کی زندگی بھی عجیب ہی ہے۔ وہ پیدائشی خوب صورت ہیں۔ یوروپین بچے عموماً بہت پیارے ہوتے ہیں مگر جب الزبتھ ٹیلر پیدا ہوئیں تو اس بچی کے حسن و جمال کو دیکھ کر خود یوروپین بھی دنگ رہ گئے۔ اتنی خوب صورت بچی بہت کم دیکھنے میں آئی تھی۔ الزبتھ ٹیلر کے والدین امریکی تھے لیکن خود ان کا جنم لندن میں ہوا تھا۔ ۲۷ فروری ۱۹۳۲ء کو مسٹر فرانس اور ان کی بیگم مسز سارہ کے گھر ایک بچی نے جنم لیا جس کا نام الزبتھ رود منڈ ٹیلر رکھا گیا۔ ان کے والد کی لندن میں ایک آرٹ گیلری تھی اور ان کی والدہ اداکارہ رہ چکی تھیں۔ گویا فن کاری انہیں ماں باپ سے ورثے میں ملی ہے۔
الزبتھ ٹیلر نے بارہ سال کی عمر میں ۱۹۴۴ء میں ایک فلم ’’نیشنل ویلویٹ‘‘ میں ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔ یہ کہانی ایک نو عمر لڑکی کے عزم کی داستان ہے جو شہسواری میں اول نمبرحاصل کرنے کے لیے جان کی بازی لگا دیتی ہے اور بالآخر اس مقصد میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ بارہ سال کی عمر میں ایک ماہر شہ سوار بننے کے لیے الزبتھ ٹیلر نے گھڑ سواری کی زبردست تربیت حاصل کی تھی لیکن یہ ان کی پہلی فلم نہیں تھی ان کی پہلی فلم ۱۹۴۲ء میں بنی تھی۔ اس سے پہلے ۱۹۳۹ء میں ان کے والدین لندن سے منتقل ہو کر کیلی فورنیا چلے گئے تھے اوریہیں سے الزبتھ کی اداکاری کا آغاز ہوا تھا۔ ان کی اداکاری اور خوب صورتی کو دیکھ کر ایم جی ایم جیسے ممتاز فلم ساز ادارے نے ان کے ساتھ معاہدہ کر لیا تھا۔ ایم جی ایم اس زمانے میں ہالی ووڈ کا سب سے بڑا اسٹودیو تھا۔ دو سال تک وہ مختلف چھوٹے کردار ادا کرتی رہیں۔ ۱۹۴۴ء میں ’’نیشنل ویلویٹ‘‘ میں انہوں نے مرکزی کردار ادا کیا اور کامیابی کی سند حاصل کر لی۔ بارہ سال کی عمر میں ادکاری کی سند حاصل کرنے والی اس نو عمر بچی کو خیال تک نہ تھا کہ وہ ہمیشہ کیلیے اداکاری کو اپنا رہی ہے۔ ابتدائی سالوں میں وہ فلموں میں اداکاری کو محض ایک تفریح سمجھتی تھیں لیکن جب انہیں بطور پشیہ وار اداکارہ کام کرنا پڑا تو ان پر یہ تلخ حقیقت آشکار ہوئی کہ ’’چائلڈ اسٹار‘‘ ہونا کتنا مشکل کام ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خدا کسی کو چائلڈ اسٹار نہ بنائے۔ اس طرح بچے کا بچپن گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ الز ٹیلر کو اپنے والدین سے ، فلم والوں سے اور عوام سے شکایت ہے کہ ان سب نے انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ والدین اور اسٹوڈیو نے پیسے کمانے کیلیے اور پبلک نے تفریح کے لیے استعمال کیا۔ اس کے بعد میڈیا کی باری آئی۔ اخبار اور ٹیلی ویژن والے لز ٹیلر پر ٹوٹ پڑے اور اس کی معصومیت اور خوب صورتی کو اپنی کاروباری کامیابی کا ذریعہ بنا لیا۔ آگے چل کر الز ٹیلر نے جس طرح دوسروں کو استعمال کیا غالباً یہ بچپن کے اسی تلخ تاثر کا ردعمل ہے۔