اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 66
آپ کو عباسی دور میں واپس لے جانے سے پہلے ایک دل چسپ واقعہ بیان کرنا چاہتا ہوں جو میرے ساتھ گزرا۔ یہ واقعہ میرے ساتھ اسی آپ کے شہر کراچی میں گزرا۔ میں آپ کی دنیا میں کسی سے بھی زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا۔ اس خیال سے کہ میری شخصیت کا اصل راز کہیں فاش نہ ہوجائے۔ میں یہاں اپنے حیرت انگیز راز کو سینے میں چھپائے اس انتظار میں بیٹھا ہوں کہ تاریخ کے سمندر کی اگلی موج مجھے اٹھا کر وقت کے کونسے عہد میں لے جاتی ہے۔ میں اپنے مستقبل سے قطعاً بے خبر ہوں۔ مجھے کچھ علم نہیں کہ آگے چل کر میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے اور کب اور کس وقت اچانک آپ کے شہر سے غائب ہو جاؤں گا ۔ صرف ہفتے میں ایک بار شہر جاتا ہوں۔ جڑی بوٹیاں فروخت کر کے ضرورت کی کچھ چیزیں خرید کر واپس اپنے کاٹج میںآجاتا ہوں۔ سوائے کاغذ ، قلم ، کپڑوں گیس اور بجلی کے بل کے میرا کوئی خرچ نہیں ہے۔ سارا دن سفر نامہ لکھنے میں گزر جاتا ہے۔ میں اس لئے بھی ہر نشست میں آپ کو تاریخ عالم کے زیادہ سے زیادہ واقعات سنا ڈالنے کی کوشش کرتا ہوں کہ کچھ پتہ نہیں کہ وقت کی لہر مجھے کب اٹھا کر ماضی کے کسی دور افتادہ عہد میں پھینک دے۔
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 65پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
یہی وہ راز ہے جو میں آپ کی دنیا کے کسی انسان پر ظاہر نہیں کرنا چاہتا۔ چنانچہ میں نے اپنے آپ کوروزمرہ زندگی کے ہنگاموں سے یہاں محفوظ کرلیا ہے کہ کہیں میرے ساتھ کوئی ایسا حادثہ نہ ہوجائے کہ لوگوں پر میرے غیرقانونی ہونے کا راز فاش ہوجائے۔ چنانچہ اس رات بھی سفرنامہ لکھنا بند کر کے میں نے کافی بنائی۔ اس کی ایک پیالی لی اور سیر کرتے کرتے ساحل سمندر پر دور نکل گیا۔ سمندر مجھ سے بائیں ہاتھ پر کچھ فاصلے پر رہ گیا تھا اور میرے سامنے اور داہنی جانب سنگلاخ چھوٹی چھوٹی ٹیکریاں تھیں جن کے درمیان ایک کچی سڑک جا رہی تھی۔ رات کا پہلا پہر تھا اور سارے علاقے پر ایک گہرا سناٹا چھایا ہوا تھا۔ مشرق کی جانب سنگلاخ ٹیکریوں کے اوپر گیارہ یا شاید بارہ تاریخ کا زرد چاند نکل آیا۔ جوں جوں وہ اوپر کھلے آسمان میں آرہا تھا زیادہ چمکیلا ہو رہا تھا اور اس کی دھندلی روشنی بڑی پر اسرار لگ رہی تھی۔ ایک عرصہ بعد مجھ پر اس دھندلی چاندنی رات نے سحر طاری کردیا۔ میں ٹیکریوں اور کہیں کہیں اگی ہوئی خشک جھاڑیوں میں سے ہوتا آگے بڑھتا رہا۔ اس ویرانے میں ایک ہول سا چھایا ہوا تھا۔ ٹیکریوں کے درمیان جو کچی سڑک جاتی تھی مجھے اس سڑک پر ایک کار بڑی تیزی سے جاتی دکھائی دی۔ کار کی روشنیاں بجھی ہوئی تھیں۔ پھر وہ بڑی تیزی سے ٹیلوں میں ایک طرف گھوم گئی۔ اس کے ساتھ ہی تیز آواز کے ساتھ بریک لگنے کی صدا گونجی۔ میں سوچنے لگا کہ شاید کراچی کے کھلنڈرے نوجوان ہوں گے اور ٹریننگ کرتے پھر رہے ہیں کہ اتنے میں ایک عورت کی چیخ بلند ہوئی۔ اب ساری بات میری سمجھ میں آگئی تھی۔ میں چیخ کی طرف لپکا مجھے چاہیے تھا کہ ذرا چھپ کر جاتا اور صورتحال کا جائزہ لیتا۔ مگر چونکہ موت کے خوف سے بے نیاز تھا۔ اس لئے بھاگ کر بے دھڑک ٹیکری کے عقب میں آگیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ مہکی مہکی چاندنی میں تین آدمیوں نے ایک گورے رنگ کی خوبصورت لڑکی کو گھیر رکھا ہے۔ لڑکی کے بال کھلے اور لباس آستین سے غائب ہوگیا ہے۔ ان آدمیوں نے چہروں پر ڈھاٹے باندھ رکھے تھے۔ ان کے ارادے اچھے نہیں تھے لیکن ایک اجنبی کو اچانک اپنے سامنے دیکھ کر وہ ٹھٹک گئے۔ ایک آدمی نے چلا کر دوسرے سے کہا۔ ’’ منہ کیا دیکھ رہے ہو۔اس عینی گواہ کو ختم کردو۔ ‘‘
دوسرے آدمی نے پلک جھپکتے ہی پستول نکالا اور مجھ پر فائر کر دیا۔ میں ان لوگوں سے زیادہ فاصلے پرنہیں تھا۔ ایک طرح سے بالکل ان کی زد میں تھا۔ گولی پستول سے نکل کر سیدھی میرے سینے میں بائیں جانب لگی اور دل کے ایک کونے میں گھس کر پیچھے سے نکل گئی۔ مجھے نہ تو جھٹکا لگا اور نہ کسی طرح کا درد محسوس ہوا اور نہ خون کا ایک قطرہ بہا اور نہ میں زخمی ہوکر گرا۔ میں فوراً اچھل کر ایک طرف جھک گیا۔ میں نے یہ ظاہر کیا کہ مجھے گولی نہیں لگی۔ اب دوسرے آدمی نے بھی پستول نکال لیا اور مجھ پر گولیوں کو بوچھاڑ شروع ہوگئی۔ اور کچھ گولیاں میرے کاندھے اور سر کے قریب سے ہو کر گزر گئیں اور دو تین گولیاں میری گردن اور سر پر بھی لگیں مگر وہی ہوا کہ گردن اور سر کے زخم اپنے آپ آپس میں مل کر بند ہوگئے۔
اب میرے مرنہ سکنے کے راز کے کھل جانے کا خطرہ تھا۔ کیونکہ گولیاں مجھ پر سیدھی آرہی تھیں اور ڈاکو یا جرائم پیشہ آدمی بھی میرے سر پر آکر کھڑے ہوگئے تھے۔ میں بعد میں کسی کو یقین نہیں دلا سکتا تھا کہ گولیاں مجھے نہیں لگی تھیں۔ چنانچہ میں نے جوابی حملہ کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنی جگہ سے اچھل کر دونوں آدمیوں کی گردنیں دبوچ لیں۔ انہیں میری مافوق الفطرت طاقت کا احساس ہوگیا تھا۔ کیونکہ میرے ایک ایک ہاتھ کی گرفت ان کی گردنوں پر تھی اور ان کا دم گھٹ رہا تھا اور زبانیں باہر نکل آئی تھیں۔
دونوں آدمی بے ہوش ہو چکے تھے۔ میں نے انہیں چھوڑ ااور تیسرے غنڈے کی طرف بڑھا۔ اس نے ایک لمبا چاقو نکال لیا اور مجھ پر حملہ آور ہوا۔ احمق آدمی تھا۔ مجھے تنہا دیکھ کر خوش ہو رہا تھا۔
میں نے اس سے کہا بھی کہ اپنے دونوں ساتھیوں کو لے کر یہاں سے بھاگ جاؤ۔ میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا مگر اس پر تو جیسے کوئی بھوت سوار تھا اور پھر وہ اس گھناؤنے کیس میں مجھے عینی گواہ بھی نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ غضب ناک انداز میں چاقو لہراتا مجھ پر آن گرا۔ میں نے ایک ہاتھ آگے کر دیا۔ اس کے چاقو کی نوک میری ہتھیلی کے اندرگھس گئی مگر اس بار بھی نہ خون کا کوئی قطرہ نکلا اور نہ مجھے ایک لمحے کے لئے درد محسوس ہوا۔ اس نے چاقو پیچھے نکال کر دوسرا حملہ کرنا چاہا تو میں نے اسے بھی گردن سے پکڑ کر ذرا سا آگے کو جھٹکا دیا۔ میں اس میں سے کسی کو ہلاک کرکے اپنے اوپر خوامخواہ کا کوئی کیس نہیں بنانا چاہتا تھا۔ لڑکی سہمی ہوئی نظروں سے یہ سارا سنسنی خیز ڈرامہ دیکھ رہی تھی۔ میرے ساتھ جھٹکا کھا کر وہ غنڈہ بھی منہ کے بل زمین پر ایسا گرا کہ اس کا سر پتھر سے ٹکرا گیا اور وہ بھی بے ہوش ہو گیا۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)