کرکٹ ٹیم کی عظیم کامیابی
پاکستانی کرکٹ ٹیم نے ٹی 20ورلڈکپ کے آغاز ہی میں بھارت کو قریباً یک طرفہ مقابلے کے بعد شکست دے دی۔ یہ فتح اس لئے بھی یادگار ہے کہ پاکستان نے ورلڈکپ میں کبھی بھارت کو شکست نہیں دی تھی۔ پاکستان نے بھارت کو نہ صرف 10وکٹوں سے ہرایا بلکہ اپنا مطلوبہ ہدف بھی دو اورز اور ایک گیند قبل حاصل کرلیا۔ کپتان بابر اعظم نے باون گیندوں پر اڑسٹھ اور محمد رضوان نے پچپن گیندوں پر اٹھہتر رنز حاصل کئے۔ دونوں کھلاڑیوں نے شاندار بیٹنگ کرتے ہوئے وکٹ کے چاروں اطراف سٹروکس کھیلے اور ناقابل شکست یعنی ناٹ آؤٹ رہے۔ شاہین شاہ آفریدی نے انتہائی تیز اور سوئنگ باؤلنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے تین ٹاپ بیٹرز کو پویلین کا راستہ دکھایا۔ اس تاریخی فتح کے ساتھ گرین شرٹس نے کئی ریکارڈ بھی اپنے نام کر لئے۔ پاکستان نے پہلا ٹی 20میں کوئی میچ دس وکٹوں سے جیتا، دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت بھی پہلی مرتبہ کسی ٹی20 میں کوئی میچ دس وکٹوں سے ہارا ہے۔ بابر اعظم اور محمد رضوان نے پہلی وکٹ کے لئے 152رنز کی ناقابل شکست شراکت بنا کر بھارت کے خلاف کسی بھی ٹیم کی جانب سے کسی بھی وکٹ پر ٹی 20کی سب سے بڑی شراکت بنا دی۔ اس میچ میں محمد رضوان نے 2021ء میں اپنے 1500رنز بھی مکمل کر لئے وہ ایک کلینڈرز ائر میں 1500رنز بنانے اولے دوسرے پاکستانی بن گئے، انہوں نے اس میچ میں وکٹوں کے پیچھے اپنے کیچز کی سنچری بھی مکمل کر لی۔جیسے ہی بابر اعظم نے وننگ سٹروک کھیلا، پورا پاکستان نعرہ تکبیر اور پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھا۔ ملک کے مختلف شہروں میں مقامی انتظامیہ،اداروں، تنظیموں کی جانب سے عوامی مقامات پر بڑی سکرینیں لگا کر میچ دکھانے کا انتظام کیا گیا تھا۔ پوری قوم نے فتح کا جشن منایا، مٹھائیاں بانٹی گئیں، لوگ سڑکوں پر نکل آئے گویا ایک جشن کا سماں تھا۔ ہر چہرے پر فتح کی خوشی دیدنی تھی۔ اس شاندار کارکردگی پر صدر مملکت، وزیراعظم سمیت تمام اعلیٰ شخصیات نے ٹیم کو مبارکباد اور شاباش کے پیغام بھیجے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عالمی کپ کا ہر میچ اپنی حیثیت کے حوالے سے اہم ہوتا ہے اور اگر میچ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہو تو برصغیر کیا بلکہ پوری دنیا کی نظریں گراؤنڈ پر مرکوز ہو جاتی ہیں۔ پاک بھارت میڈیا کے علاوہ عالمی میڈیا میں پاک بھارت میچ کو بہت ”ہائی لائٹ“ کیا جاتا ہے۔ گویا ورلڈکپ فائنل سے قبل اسے ایک فائنل کی حیثیت مل جاتی ہے۔ الحمدللہ اس اعصاب شکن مقابلے میں شاہین ایک لمحے بھی ”پینک“ نہیں ہوئے۔ ایک میچ بابر اعظم اور ویرات کوہلی کے درمیان بھی تھا۔ جس میں بھی بابر اعظم سرخرو ہوئے، دونوں نے نصف سنچریاں سکور کیں لیکن ایک کپتان کی نصف سنچری ٹیم کو نہ بچا سکی جبکہ دوسرے نے ٹیم کو جتوا دیا۔ اب پاکستان اپنا اگلا میچ منگل کو نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلے گا۔ یہاں یہ عرض کر دیا جائے تو بے جا نہیں ہوگا کہ بھارت کے خلاف فتح کے بعد کھلاڑیوں کو مطمئن ہونے یا خوشی کے خمار میں اگلے مقابلوں کو آسان نہیں لینا چاہیے۔ پاکستان کے پول میں نیوزی لینڈ جیسی مضبوط ٹیم کے علاوہ عالمی قوتوں کو سرپرائز دینے والے افغانستان کی ٹیم بھی شامل ہے۔ہنوز دلی دور است، سفر بہت لمبا ہے اور کٹھن بھی،لہٰذا شاہینوں کو بھارت کے خلاف فتح کے خمار سے نکل کر ہر میچ فائنل کی طرح کھیلنا ہوگا۔ بس سمجھ لیں ان عالمی مقابلوں میں غلطی کی گنجائش بہت کم ہے۔
بھارت کے خلاف فتح کی بہت سی جہتیں ہیں۔ اس فتح نے پوری دنیا کو ایک پیغام بھی دیا کہ وہ قوتیں جو پاکستانی کرکٹ کے خلاف سازشیں کرتی رہی ہیں اورہمسایہ ملک کی ایماء پر دوروں سے انکار کرتی رہی ہیں، وہ سمجھ لیں کہ ہم آسانی سے ہارنے والے نہیں ہیں۔ انٹرنیشنل کرکٹ کے لئے ہمارے گراؤنڈز تو ویران کئے جا سکتے ہیں لیکن ہمارے عزم،حوصلے اور ٹیلنٹ کو شکست دینا ممکن نہیں۔ دوسرا مہنگائی اور بدامنی کے سبب کملائے پاکستانیوں کے چہروں کو ایک عظیم خوشی ملی۔ پاکستانیوں کا مورال بلند ہوا۔ اس میں کوئی شک نہیں پاکستانی کھلاڑیوں کی اگر مناسب نگہداشت کی جائے انہیں تربیت کے مواقع فراہم کئے جائیں تو یہ دنیا کی کسی بھی ٹیم کو کسی بھی گراؤنڈ پر شکست دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ضرورت ہے تو اس بات کی کہ حکومتی سطح پر کھیلوں کی ترویج کھلاڑیوں کی تربیت انہیں بین الاقوامی مقابلوں کی تیاری اور کھیلوں کی تنظیموں کو سیاست سے پاک کرکے ان کا سٹرکچر خالص پیشہ ورانہ انداز میں بنایا جائے۔ قومی کرکٹ ٹیم نے ٹی ٹونٹی ہو یا ون ڈے تمام عالمی اعزاز حاصل کئے۔ اس وقت پاکستان کی چھوٹے اور دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے سپوت ٹاپ ٹین میں موجود ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ متی بہت زرخیز ہے۔
وزیراعظم عمران خان سے (جو کہ خود ایک لیجنڈری کرکٹر رہے ہیں) بہتر اس بات کی اہمیت کو کون سمجھ سکتا ہے، لیکن ہم ان کی خدمت میں یہ گزارش کر دیں کہ کرکٹ ہی فقط سب کچھ نہیں۔ پاکستان ماضی میں ہاکی اور سکوائش میں ناقابل یقین کارنامے انجام دے چکا ہے۔ اسی طرح ہم کُشتی، باکسنگ، کشتی رانی اور اتھلیٹک میں بھی اپنا لوہا منوا چکے ہیں، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ عالمی، اولمپکس، ایشین چیمینز گویا دنیا کا ہر اعزاز جیتنے والی ہماری ہاکی ٹیم اب اس قابل ہی نہیں رہی کہ اولمپکس کے لئے کوالیفائی کر سکے۔ یہاں تک کہ چیمپئن ٹرافی کا اجرا کرنے والا ملک پاکستان اب یہ ٹرافی کھیلنے کا بھی اہل نہیں، سکوائش میں جہانگیر خان کا ایسا ریکارڈ ہے جو شائد کئی صدیوں برقرار رہے وہ دنیا کے واحد کھلاڑی ہیں جنہوں نے قریباً ایک دہائی اور ہزاروں گیمز میں لگاتار فتح حاصل کی اور ایک سیٹ بھی نہیں ہارا، لیکن آج سکوائش بھی زبوں حالی کا شکار ہے۔ باقی کھیلوں کے زوال پر کیا رونا روئیں۔ ہاکی ہمارا قومی کھیل ہے اور اس کے ساتھ مقتدر حلقوں نے وہی سلوک کیا جو انہوں نے قوم کے ساتھ کیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی کھیل پالیسی کا ایک بار از سر نو جائزہ لیا جائے۔ حکومت کو چاہیے کہ کرکٹ کے ساتھ ساتھ باقی کھیلوں پر بھی توجہ دے۔ غیر ملکی کوچز بلانا کافی نہیں، پاکستانی کوچز کو بین الاقوامی معیار میں ڈھالنے کی بھی ضرورت ہے جو گراس روٹ لیول پر کھلاڑیوں کی تربیت کریں۔ ملک بھر میں موجود ٹیلنٹ کو یکجا کیا جائے۔ کھلاڑیوں کی سائینٹفک انداز میں تربیت کی جائے۔ میدانوں کے چیلنجز کو سامنے رکھ کر منصوبہ سازی کی جائے، پاکستان میں سب کچھ موجود ہے بس کمی ہے تو اوپری سطح پر مضبوط قوت ارادی کی اور فیصلہ سازی کے فیصلے بروقت ہونے چاہئیں اور ان میں تسلسل بھی برقرار رہنا چاہیے۔ ذاتی پسند یا ناپسند کو مسلط کرکے کھیلوں کی تنظیموں سے کھلواڑ بند ہوجانا چاہیے۔