جمہوریت کی زلفوں کا اسیر بابا!
نواب زادہ نصر اﷲ خاں کی فطرت میں چین نہیں ہے۔ تڑپتے پھڑکتے رہنا اُن کی طبیعت کا خاصہ ہے،یہ عقاب کی طرح اپنے شکار پر جھپٹتے ہیں ،لیکن اُن کا شکار چڑیاں نہیں ہوتیں بلکہ وہ طاقتور مخلوق ہے جسے حکومت کہا جاتا ہے۔نواب زادہ نصر اﷲ خان صاحب اِس وقت اِسی کے پیٹے میں ہیں لیکن حکومتوں سے پنجہ آزمائی کی عادت ابھی تک نہیں گئی، دل کے مریض ہیں،اُن کے ڈاکٹر اُنہیں سیاسی سرگرمیوں سے بازرہنے کے لئے کہہ چکے ہیں،خود حکومت بھی اُن سے تمام تر اختلافات کے باوجود اُن کی صحت کو اِس درجہ عزیز رکھتی ہے کہ اُنہیں اکثر اُن کے گھر میں نظر بند رکھتی ہے مگر نواب زادہ صاحب کو یہ آرام راس نہیں آتا،وہ حکومت کا شکریہ ادا کرنے کی بجائے اُلٹا اُسے کوستے ہیں اور کہتے ہیں کہ نظر بندی، جیلیں اور کوڑے جمہوریت کا راستہ نہیں روک سکتے، دراصل نواب زادہ صاحب کو جمہوریت سے عشق ہے،وہ اِس کے عشق میں ابتدائی جوانی ہی سے مبتلا ہیں مگر یہ عفیفہ کسی دور میں بھی اُن کے ہاتھ نہیں آئی،ہمارے کئی سیاسی بانکے جمہوریت اور آمریت دونوں کو بیک وقت فلرٹ کرتے ہیں، جمہوری دور میں جمہوریت کے لب ورخسار کے قصیدے پڑھتے ہیں اور آمریت آنے پر آمریت کی حسینہ پر مرمٹتے ہیں،آمریت کو مرمٹنے والے عشاق پسند ہوتے ہیں۔چنانچہ وہ ایسے عشاق کو سیاسی موت مار کر ہی دم لیتی ہے مگر اپنے نواب زادہ صاحب ہر دور میں اقبال کے اِس شعر کی تفسیر نظر آتے ہیں:
فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں اپنا
یا اپنا گریباں چاک یا دامن یزداں چاک
اور”دامن یزداں“ چاک کرنے میں اُنہیں ہر دفعہ کامیابی ہوتی ہے،نواب زادہ نصر اﷲ کردار ہی کے نہیں،گفتار کے بھی غازی ہیں۔جب وہ کوثر وتسنیم میں دھلی ہوئی اُردو میں اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہیں تو جی چاہتا ہے کہ وہ بولتے رہیں اور ہم سنتے رہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے اُنہیں بے پناہ حافظہ اور استدلال کی قوت عطا کی ہے،اِ س کے ساتھ اُردو کے نامور اساتذہ کے خوبصورت شعروں کے ٹکڑے اُن کی گفتگو کی اثر آفرینی میں اضافے کا باعث بنتے ہیں،پاکستان اُن کی کمزوری ہے ،یہ بابا پاکستان کو جوان دیکھنا چاہتا ہے۔چناچہ جب آمریت کے دور میں علیحدگی پسند قوتیں سر اُٹھاتی ہیں تو یہ اُن کے خلاف ایک جمہوری محاذ بنا کر اُن کی سازشوں کے تانے بانوں کو تباہ کرکے رکھ دیتا ہے مگر حکومت کے ایجنڈے میں علیحدگی پسندوں کی بجائے پاکستان کو بچانے والی قوتوں کی بربادی سرفہرست ہوتی ہے،نواب صاحب کی پاکستان سے محبت اور ُن کے خوبصورت استدلال کے حوالے سے میری خواہش ہے کہ چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف اپنے کور کمانڈروں کی ہمراہی میں نواب زادہ صاحب سے تین چار نشستو ں میں مکالمہ کرکے دیکھیں۔مجھے یقین ہے کہ ہماری فوجی حکومت اِس مکالمے کے مثبت اثرات قبول کرے گی۔فوجی کمانڈ پر یہ حقیقت پوری طرح واضح ہوجائے گی کہ سیاست کی بنیاد پر معرض وجود میں آنے والے ملک کو فوج اپنی تمام تر حب الوطنی کے باوجود نہ ماضی میں بچا سکی ہے اور نہ آئندہ بچا سکے گی چنانچہ:
جنہیں حقیر سمجھ کر بجھا دیا تو نے
وہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی
یعنی سیاسی ادارے ہی پاکستان کو نہ صرف یہ کہ بچائیں گے بلکہ اِ سے مضبوط بھی بنائیں گے۔
آخر میں دو لطیفے:
ایک بحری جہاز سمندری طوفان میں گر کر تباہ ہوگیا، ایک شخص تند وتیز موجوں کے تھپڑے کھاتا ہوا ایک سنسنان اور ویران جزیرے تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔یہاں انسانی زندگی کے کوئی آثار نہ تھے،اُس نے ایک ٹیلے پر کھڑے ہوکر با آواز بلند کہا:
” اگر یہاں کوئی حکومت ہے تو میں اُس کے خلاف ہوں“
یہ شخص یقینا نواب زادہ نصر اﷲ کا ہمزاد تھا۔
دوسر الطیفہ:۔
ایک جہاز ہوا میں ہچکولے کھانے لگا تو مسافروں نے خوف کے مارے چیخنا شروع کردیا۔اتنے میں سپیکر پر پائلٹ کی آواز سنائی دی،خواتین وحضرات! جہاز پر ہمارا مکمل کنٹرول ہے، آپ کی جان کو کوئی خطرہ لاحق نہیں،بس جہاز میں معمولی فنی خرابی ہے،آپ اپنے جہاز کے اِس کپتان پر یقین رکھیں،اپنا دھیان ہٹانے کے لئے آپ کھڑکی سے باہر نظر دوڑائیں، بہت خوبصورت منظر ہے، نیچے نیلا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے، آبی پرندے ہوا میں تیر رہے ہیں۔رنگ برنگی کشتیاں سمندر کی موجووںسے اٹھکیلیاں کررہی ہیں،آپ مطمئن رہیں،آپ مکمل طور پر محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔ آپ جو سرخ رنگ کی کشتی دیکھ رہے ہیں،میں اُسی کشتی سے بول رہا ہوں!
”یہ کپتان یقیناجنرل یحییٰ خاں ہوگا۔ 1971ءمیں سقوط مشرقی پاکستان سے ایک دن پہلے اُس کے یہی بلند وبانگ دعوے نشر ہوئے تھے۔
(یہ کالم نواب زادہ نصر اﷲ خاں کی زندگی میں لکھا گیا)٭