کیا بھارت نے پانی چھوڑ کر شرارت کی؟
بھارت کی طرف سے کبھی خیر کی توقع بے جا ہے کہ نہ صرف کشمیر کے تنازعہ پر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتا چلا آرہا ہے بلکہ دریاؤں کے پانی کے معاملات کوبھی اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرتا ہے، نہ صرف کشمیربلکہ پانی کی تقسیم کے حوالے سے عالمی وعدوں، قراردادوں اور قوانین کی خلاف ورزیاں کرتا چلا آرہا ہے، دریاؤں کے منبع پر ڈیم بناکر پاکستان کو پانی کی قلت میں مبتلا کرنے کی سازش کے علاوہ اپنے شہروں اور دیہات کو سیلاب کے نقصان سے بچانے کے لئے سیلابی پانی کا رخ پاکستان کی طرف بھی کردیتا ہے، حال ہی میں موسم نے انگڑائی لی اور بھارتی علاقے میں شدید موسلا دھار بارشوں نے سیلابی کیفیت پیدا کردی تو بھارتی ماہرین اور حکام نے ستلج اور راوی کے بالائی علاقوں سے آنے والے سیلابی پانی کے ریلے اچانک چھوڑ دیئے اور اپنے علاقے میں پانی روکنے کے لئے بنائے گئے ذخیروں کے گیٹ کھول دیئے اس سلسلے میں دونوں ممالک کے درمیان معاہدہ اور میکنزم موجود ہے جس کے مطابق سیلاب کی صورت حال اور معلومات کا تبادلہ ہوتا اور جب کبھی پانی زیادہ مقدار میں چھوڑنا مقصود ہو تو پہلے اطلاع دی جاتی ہے تاکہ بہاؤ کے رخ پر لوگ اپنا انتظام کرلیں، راوی اور ستلج کا بہاؤ بھی دوسرے دریاؤں (جہلم+چناب) کی طرح پاکستان کی طرف ہے۔جہاں تک دریا ستلج اور راوی کا تعلق ہے تو یہ سارا سال خشک ہی رہتے ہیں، بھارت کی طرف سے بہت تھوڑا پانی (ضرورت سے زیادہ) ان میں آتا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت ان دریاؤں کے پانی پر اس کا حق مان لیا گیا تھا، جہلم اور چناب پر پاکستان کا دعویٰ تسلیم کیا گیا لیکن بھارت اس کی بھی خلاف ورزی کرتا ہے، چناب اور جہلم کے بالائی حصے (متنازعہ مقبوضہ کشمیر) میں ڈیم بنا چکا ہے اور جب زیادہ بارشیں ہوں تو پانی کارخ پاکستان کی طرف کر دیا جاتا ہے، اس مرتبہ مون سون کے آخر میں شدید بارشیں ہوگئیں تو بھی ایسا ہی کیا گیا، جس سے چناب، راوی اور ستلج سے منسلک نہروں اوربرساتی نالوں میں سیلاب کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ دریاؤں کے نواح میں سیالکوٹ کے علاقے، شکر گڑھ اور نارووال کے علاوہ یہاں ضلع قصور میں سیلابی پانی کھڑی فصلوں کو بری طرح متاثر کرگیا، جبکہ ستلج اور راوی کے بند کے اندر بسنے والے لوگ بے گھر بھی ہوگئے، سیالکوٹ، نارووال، شکر گڑھ اور قصور کے کئی دیہات خالی کرانا پڑے۔بھارت کی اس ہٹ دھرمی اور سازش کے حوالے سے پاکستان کی طرف سے کئی بار احتجاج کیا گیا، عالمی بینک سے شکایت ہوئی، مذاکرات ہوئے اور آبی ماہرین کسی نتیجے پر نہ پہنچے، انہی حالات کی وجہ سے پانی کی قلت کا خدشہ ہوا اور ڈیم بنانے کی تحریک شروع ہوئی، ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ تحریک زیادہ موثر ہو اور حکومت بھی تیزی دکھائے تاکہ ڈیم جلد تعمیر ہوسکیں۔