مقدر کا سکندر ،شہنشاہ سنگیت محمد رفیع کے حالات زندگی ۔۔۔قسط نمبر 15

مقدر کا سکندر ،شہنشاہ سنگیت محمد رفیع کے حالات زندگی ۔۔۔قسط نمبر 15
مقدر کا سکندر ،شہنشاہ سنگیت محمد رفیع کے حالات زندگی ۔۔۔قسط نمبر 15

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  محمد رفیع کی شخصیت کے بارے میں کسی کو کوئی بدگمانی نہیں تھی۔کھلی کتاب کی طرح ان کے وچار ہر کوئی پڑھ لیتا تھا ۔جیسا کہ بتایا کہ وہ مذہبی احترام کے بہت قائل تھے اور اس وجہ سے بھی ایسی محافل میں نہیں جاتے تھے جہاں انہیں لگتا کہ وہ مروّتابھی کسی کا ساتھ نہیں نبھاسکتے ، جب کسی شراب نوش کے ساتھ یا کسی ڈانس پارٹی میں انہیں مخرب اخلاق سچویشن کا سامان کرنا پڑسکتا تھا تو وہ پہلے ہی اسکو ملحوظ رکھتے اور ایسی محافل میں جانے سے کتراتے تھے ۔
معروف میوزک ڈائریکٹر پیارے لعل جی کہا کرتے تھے کہ رفیع صاحب زیادہ تر خاموش رہتےے تھے یا سب سے الگ ۔پیارے لعل جی کے دل میں محمد رفیع کا احترام کسی بھگوان کی ماند ہی تھا ۔حالانکہ پیارے لعل جی خود اس شعبہ کے بھگوان مانے جاتے تھے ۔ان کی دھنوں کی مٹھاس اور سادگی میں محمد رفیع نے جو کھنک بھری ،پیارے لعل جی کے لئے وہ گانے سچوئشنز کے مطابق امر ہوجاتے تھے ۔پیارے لعل جی کہا کرتے تھے کہ ہم لوگ محمد رفیع جی کا نام لیکر نہیں پکارتے تھے ،انہیں احترام سے ”صاب جی“ کہتے تھے ۔جب ہم ان کی تعریف کرتے تو دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر نیاز مندی سے کہتے ”یہ سب میرے اللہ کا کرم ہے “انہیں کبھی بڑا بول بولتے نہیں دیکھا ۔وہ ہر نئے کمپوزر کا گانا مفت گاتے ،ہم اسکو صاب جی کا آشیرواد کہا کرتے تھے ۔ان کے اس سلوک سے کسی بھی میوزک ڈائریکٹر کا بھلا ہوجاتا تھا ۔اس لئے سب لوگ انہیں فرشتہ کہتے ۔جب وہ ایسے کلمات ہماری زبان سے سن لیتے تو روک دیا کرتے تھے کہ مجھے فرشتہ نہ سمجھو ۔بڑا گناہ گار ہوں ۔لیکن جو انسان انسانوں کے جنگل میں شرافت کا نمونہ ہو اسے فرشتہ ہی کہنا چاہئے ۔

 پچھلی قسط پڑھئے۔مقدر کا سکندر ،شہنشاہ سنگیت محمد رفیع کے حالات زندگی ۔۔۔قسط نمبر 14

 اپنے دور کے چاکلیٹی ہیرو جیتندرا بھی محمد رفیع کے دیوانے تھے ۔انکی نظر میں محمد رفیع تان سین ثانی ہیں جنہیں اوپر والے نے صرف ان کے لئے دنیا میں بھیجا تھا ۔جیتندرا انہیں اپنا محسن بھی کہتے ہیں۔ جیتندرا ایک عام گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ۔جب پچاس کی دہائی کے آخر میں انہیں فلموں میں چانس ملا تو انہیں محمد رفیع کی آواز نے بہت جلد عروج تک پہنچادیا ۔وہ اس گھڑی کو کبھی نہیں بھولے اور اسکا ذکر کرتے رہتے ہیں کہ محمد رفیع صاحب کی آواز میں جو کشش اور جادو تھا اسکی بدولت انہیں ایکٹنگ کی زیادہ ضرورت ہی پیش نہیں آتی تھی کیونکہ محمد رفیع تاثرات کے ماسٹر تھے ۔آدھے سے زیادہ تاثرات تو وہ گانے میں دے دیتے تھے ۔

جیتندرا کے جب حالات بدلے تو انہوں نے ستّر کی دہائی میں خود بھی فلمیں پروڈیوس کرنا شروع کردی تھیں۔انہوں نے اپنی پہلی فلم ”دیدار یار“ بنائی تو اسکا پہلا گانا محمد رفیع صاحب سے گوایا۔مزے کی بات یہ ہے کہ اس فلم کا آغاز 1976میں ہوا تو اس وقت جیتندرا نے انہیں ایک گانے کے چار ہزار روپے دئے جو اس زمانے میں معقول رقم تھی ۔یونہی فلم بنتے بنتے 1980 کا سال آگیا تو فلم کا آخری گانا کشور اور رفیع صاحب نے گایا ۔گانے کی ریکارڈنگ ختم ہوئی تو پروڈکشن والا ان کے پاس آیا اور پوچھا کہ رفیع صاحب کو گانے کا کتنا معاوضہ دینا ہے ۔پوچھا کہ کشو رصاحب کو کتنے دئے ہیں ایک گانے کے ،بتایا گیا کہ بیس ہزار ۔جیتندرا نے کہا” تو پھر رفیع صاحب کو بھی بیس ہزار دو ناں“ پروڈکشن والے نے رفیع صاحب کے براد نسبتی جو ان کے سیکرٹری بھی تھے ان کو بیس ہزار روپے دئے تو شام کو وہ جیتندرا کے گھر پہنچ گئے اور پیغام دیا ” صاب رفیع صاحب بہت ناراض ہیں“
جیتندرا پریشان ہوگئے کہ ایسی کیا گستاخی ہوگئی اور آج تک تو کبھی ایسا اتفاق بھی نہیں ہوا کہ وہ ان سے ناراض ہوجائیں ۔انہوں نے فوراً رفیع صاحب کو فون کیا تو وہ پنجابی میں بولے ” اوئے جیتے تیرے کول بڑے پیسے آگئے نیں“ جیتندرا کو تب معلوم پڑا کہ ان سے کیا گستاخی ہوئی ہے ” جب تم نے چار ہزار طے کئے تو پھر بیس ہزار کیوں بھیجے “جیتندرا نے بڑا کہا کہ چار سال پہلے جو معاوضہ طے پایا تھا اب موجودہ حالات کے مطابق تو بیس ہزار ہی بنتے ہیں مگر رفیع صاحب نے انہیں سولہ ہزار روپے واپس کردئےے اور یہ ایسا ایک بار نہیں ہوا ۔محمد رفیع نے جو زبان کرلی ،اس میں پھر زمانہ بدلنے اور حالات بدلنے کے تقاضوں کو مجبوری نہیں بنایا۔

محمد رفیع کی سنگیت سے سادگی دیکھئے کہ اوائل زمانہ میں جب ابھی انہیں کام کی تلاش تھی ،تین چار فلموں میں وہ گیت گابھی چکے تھے تو انہیں تقسیم ہند سے پہلے بنائی جانے والی فلم لیلٰی مجنوں میں ایکٹنگ بھی کرنی پڑگئی۔یہ صوفی دیوانوں کا ایک کورس گانا تھا جس میں محمد رفیع بھی داڑھی لگا کر گاتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔یہ گانا تھا ” ترا جلوہ جس نے دیکھا “ اب تو کوئی نہیں جانتا کہ محمد رفیع جنہیں ایکٹنگ سے کوئی شغف نہیں تھا مگر با امر مجبوری انہیں سکرین پر کیمرے کا بھی سامنا کرنا پڑا ۔یہ کورس کیمرے کے سامنے بھی انہیںگانا پڑ ا اور یہ انکی زندگی کا پہلا تجربہ تھا ۔
سکرین پر انہیں پنڈت گوبند رام جیسے موسیقارنے موقع دیا تھا اور ان سے دو گیت گوائے تھے ۔موسیقار پنڈت گوبند رام اپنے دور کا بڑا نام تھے ۔اس فلم میں دو میوزک ڈائریکٹرتھے ،دوسرے رفیق غزنوی تھے ،دونوں نے اپنی دھنوں سے لیلٰی مجنوں کو تماشائیوں کا دل لوٹنے پر مجبو رکردیا تھا ۔ اس فلم میں پاکستان کی فلم انڈسٹری کے تین بڑے لوگ شامل تھے ۔نذیر صاحب اس فلم کے ہیرو بھی تھے اور ڈائریکٹر بھی ان کے ساتھ سورن لتا ہیروئن تھی ۔ رفیق غزنوی میوزک ڈائریکٹر تھے ۔پاکستان بننے کے بعد یہ تینوں شخصیات پاکستان کے حصہ میں آئیں لیکن محمد رفیع انڈیا کے ہوکررہ گئے ۔اس فلم کے علاوہ بھی انہوں نے فلم جگنو میں گانے پر ایکٹنگ کی تھی ۔اس فلم کی ہیروئن گلوکارہ میڈم نورجہاں تھی ،ان کے مقابل ہیرو دلیپ کمار تھے ۔اس فلم کا گانا بھی کورس کی صورت ہی تھا جس کے بول تھے ” وہ اپنی یاد دلانے کو اک عشق کا قصہ چھوڑ گئے“محمد رفیع کو ایکٹنگ شوبھا نہیں دی اور انہوں نے آواز میں اپنے دلی جذبات کو ہی پیش کرنا مقدم سمجھا ۔انہیں ایک آدھ اور فلم میں بھی کورس میں گاتے ہوئے پیش کیا گیا لیکن جلد ہی تقدیر نے انہیں پس پردہ آواز کے لئے چُن لیا اور ان کی لائن سیدھی کردی۔نوشادعلی ان کی زندگی میں نہ آتے تو شاید وہ کبھی صف اوّل میں نہ آپاتے۔
(جاری ہے )