بیوروکریسی اور وزیر اعظم عمران خان
ملک میں معاشی سرگرمیاں بحال کرنا ہندوستان کے ساتھ جنگ کرنے سے بڑا کام ہے۔ جنگ ہوئی توقوم ایک ہو جائے گی ، معاشی ترقی نہ ہوئی تو تتر بتر ہو جائے گی اور ’تبدیلی‘ کو تبدیل کرنے نکل کھڑی ہوگی، جس کے سبب پی ٹی آئی کی لائف لائنز وقت سے پہلے ختم ہو سکتی ہیں۔
وفاقی وزیر خزانہ اور ان کی اکنامک ایڈوائزری کونسل سے غضب کی توقعات ہیں کہ وہ معیشت کو سنبھالا دینے میں کامیاب ہو جائیں گے ۔
یہ الگ بات کہ ابھی تک ان کی ہر کوشش نان سٹارٹر ثابت ہو رہی ہے اور عوام کو متاثر نہیں کر پارہی۔
ویسے ملک کی اکانومی ٹھیک ہو نہ ہو، اکنامک ایڈوائزری کمیٹی کے اراکین کی ضرور ٹھیک ہو جائے گی، کیونکہ ان کی قابلیت کا ملک کو فائدہ ہو نہ ہو، خود ان کو ضرور ہوگا۔ممکن ہے چین، سعودی عرب اور امریکہ سے سرمایہ کاری اور آئی ایم ایف سے قرضے کی دستیابی سے پاکستانی معیشت کک سٹارٹ ہو جائے اور پاکستانیوں کے چہروں پر چھائی مردنی چھٹ جائے جنہوں نے ایمنسٹی سکیم کا توقعات کے مطابق فائدہ نہیں اٹھایا ہے ، خاص طور پر پنجاب سے بہت مایوس کن ردعمل دیکھنے میں آیا ۔
وفاقی وزیر خزانہ نے ملک میں معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لئے پانچ ایکسپورٹ اوریئنٹڈ صنعتی شعبوں کو مراعات کا اعلان کیا ہے ۔ اس ضمن میں خاص طور پر ان کے لئے گیس کی قیمت میں کمی ایک بڑا قدم ہے، مگر اس کے باوجود مصیبت یہ ہے کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کا چولھا گرم ہونے میں کم از کم چھ ماہ لگیں گے جبکہ حکومت کے پاس عوام کو چمتکار دکھانے کے لئے 100دن سے زیادہ کا وقت نہیں ہیں۔
ان 100دنوں میں بھی حکومت کے لئے سب سے بڑا چیلنج کرپٹ لوگوں کے خلاف کاروائی عمل میں لاتے ہوئے بیرون ملک پڑا پاکستان کا پیسہ واپس لانا ہے۔ اس کاروائی کو اگر پہلے سو دنوں میں شروع کردیا گیا تو معیشت میں سرمایہ کاری کی سرگرمیاں ماند پڑ سکتی ہیں اور اگر ایسا نہ کیا تو اپوزیشن کی سیاسی سرگرمیاں چار چاند پاسکتی ہیں ۔
دوسری جانب اگرچہ ہم نے سعودی عرب اور چین کے سامنے بھرپور وکالت کی ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس وکالت کا معاوضہ کب ملتا ہے اور کتنا ملتا ہے، جبکہ دوسری جانب لبرل طبقے علیحدہ سے جز بز ہو رہے ہیں۔
بیرون ملک پاکستانی بھی ڈیم فنڈ میں اس دردسے پیسے جمع نہیں کروارہے، جس درد کے ساتھ ان سے اپیل کی گئی تھی ۔اسی طرح بھارت کے ساتھ امن کی خواہش میں اوتاولے پن کا مظاہرہ ضروری نہیں تھا۔ اتنی کوشش اگر ایشیا کپ 2018ء میں بھارت سے میچ جیتنے کے لئے کی جاتی تو کہیں اچھا ہوتا!
کرپشن کے خاتمے کے علاوہ دوسرا بڑا چیلنج ملک میں گورنینس کو یقینی بنانا ہے اور وزیر اعظم عمران خان ان دنوں بیوروکریسی سے براہ راست مخاطب ہیں جبکہ ڈاکٹر عشرت حسین گورنینس ٹھیک کرنے کاکا بلیو پرنٹ تیا ر کر رہے ہیں۔
گورنینس ٹھیک کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ پہلے اسے خراب کیا جائے، لیکن جس حکومت کو گورنینس ملی ہی خراب ہو وہ اس کو اور کتنا خراب کرسکتی ہے۔
سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے نوے کی دہائی میں گورنینس کو خوب خراب کیا تھا اور پھر 2008ء سے 2018ء کے درمیانی عرصے میں ٹھیک کرلیا۔ تب سے ہماری بیوروکریسی کو ٹھیک کام کرنے کی عادت ہو گئی ہے اوروہ ملک کے لئے نہیں، بلکہ صرف حکمرانوں کے لئے کام کرتی ہے۔
وزیرا عظم عمران خان چونکہ اپنے لئے کام کروانے میں دلچسپی نہیں رکھتے، اس لئے بیوروکریسی نے پی ٹی آئی میں دوسرے درجے کی قیادت کی باتیں لیک کرنا شروع کردی ہیں اورعمران خان ہیں کہ انہیں ٹھیک کرنے نکل کھڑے ہوئے ہیں، جس طرح نون لیگ کے خلاف بیوروکریسی میں مشرف کی باقیات سرگرم رہی اسی طرح وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے خلاف نون لیگ کی مبینہ باقیات سرگرم ہو گئی ہے ۔ ان سے خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے، لیکن انہیں کان سے پکڑ کر نکالا بھی نہیں جا سکتا ہے۔
گورنینس ٹھیک کرنے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ سیاستدان بیوروکریسی کا کام سمجھتے ہوں، ان کی تیار کردہ فائلیں پڑھنا جانتے ہوں ایک عرصے سے ملک کا نظام بند پڑا ہے، لیکن اگر ایسی صلاحیت نہیں ہے تو پنجاب کی بیوروکریسی کو خیبر پختونخوا کی مثالیں دے کر ٹھیک نہیں کیا جا سکتا ہے بالکل اسی طرح جیسے پنجاب کو ٹھیک کرنے کے لئے جنوبی پنجاب سے وزیر اعلیٰ لگا کر کام نہیں چلایا جا سکتا ہے، اگر ایسا ہوسکتا ہوتاتو جنوبی پنجاب والے پنجاب سے علیحدہ ہونے کا نعرہ کیوں لگاتے ؟۔۔۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ جنوبی پنجاب کا وزیر اعلیٰ اسی طرح پنجاب کی گورنینس ٹھیک نہیں کرسکتا، جس طرح پنجاب کا وزیرا علیٰ جنوبی پنجاب کے احساس محرومی کو ختم نہ کرسکا تھا اور پنجاب کے کل بجٹ کا 46فیصد جنوبی پنجاب پر خرچ کرکے بھی انتخابات میں ہار گیاہے۔