یہ کیسا انصاف ہے ؟
آخر کار سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مرکزی ملزمان کی طلبی کے حوالے سے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ سامنے آ گیا اورآثار نظر آنے لگے ہیں کہ مرکزی ملزمان محفوظ ہوگئے ہیں۔17 جون 2014 کو ہونے والی بربریت کے مناظر نگاہوں میں گھوم رہے ہیں دل چاہ رہا ہے کے ڈاکٹر طاہرالقادری کو مشورہ دوں کہ اپنی تنظیم کو یورپ میں ہی منتقل کر دیں اور دین کی خدمت کا کام کریں ۔اس ملک میں انصاف کے نام پر انصاف کا قتل عام ہورہا ہے ۔چار سال سے دھکے کھارہے ہیں مگر انصاف نہیں مل رہا۔
تاجدارِ کائناتﷺ نے فرمایا تھا کہ تم سے پہلے قومیں اس لیئے برباد ہوگئیں کہ ادھر بھی امیر اور با اثر طبقے کے لئیے انصاف کا پیمانہ اور تھا جبکہ غریب اور مظلوم کے لئیے اور۔آج وطن عزیز میں بھی یہی حال ہے کہ قانون اشرافیہ کی لونڈی بن کر رہ گیا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت میں انصاف کا سورج تاریک ہوتا جا رہا ہے ۔دو نہیں ایک پاکستان کے دعویداروں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی بربریت پر لب سی لئیے ہیں۔ مسندِ اقتدار پر پہنچنے میں عوامی تحریک کے بے گناہوں کا لہو شامل ہے ۔خان صاحب کی پنجاب حکومت نے ایک بھی پولیس افسر یا بیوروکریٹ کو معطل نہیں کیا بلکہ سابقہ حکومت کی طرح نئی پوسٹنگ دی جارہی ہے ۔کیپٹن عثمان کی مثال سامنے ہے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری کی سیاست کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کسی بھی قسم کے تشدد کے سخت خلاف ہیں ۔انہوں نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں جانے کا اعلان کیا ہے اس میں کتنا ٹائم لگے کیا نتیجہ نکلے گا کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔تا ہم ایک بات طے شدہ ہے کے تحریک انصاف کی نادان حکومت نے ایک اور مضبوط اپوزیشن جماعت کو جس کی بیشک پارلیمان میں نمائندگی نہیں ہے مگر اسکی اسٹریٹ پاور سے زمانہ واقف ہے اپنے مقابل کھڑا کر دیا ہے۔عدالتی پروسیجر سے قطع نظر انتظامی طور پر بھی ایسا کوئی کام نہیں کیا گیا جو سانحہ ماڈل ٹاؤن لواحقین کے لئیے تسلّی کا باعث بنتا۔لگتا ہے ایک پاکستان بنانے کے چکر میں طاقتور کا پاکستان الگ بن رہا ہے اور مظلوم الگ کٹہرے میں کھڑا نظر آرہا ہے۔اگر خان صاحب کی حکومت نے ان مسائل کا حقیقی ادراک نہیں کیا تو تو لانگ مارچ اور دھرنے انکی حکومت کے ابتدائی دنوں میں بھی ہو سکتے ہیں۔ادھرسیاسی کزن عمران خان ڈاکٹر طاہرالقادری کو ایک فون کرنے کے روادار بھی نہیں ہیں ۔ یہ وہی طاہرالقادری ہیں جن کے انقلابی کارکن خان صاحب کے دھرنے کے پنڈال کی رونقیں بحال رکھتے تھے اور سیکوریٹی کے فرائض بھی انجام دیتے تھے اب کس کو دوست رکھنا ہے اور کسی کو مخالف بنانا ہے یہ خان صاحب کا اپنا فیصلہ ہوگا۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں،ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔