اہرام مصر سے فرار۔۔۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 42
اس کا سارا جسم کانپ رہا تھا۔ میں نے اسے کہا۔ ’’ قنطور ! شاید تمہارا ارادہ سانپ کا روپ دھار کر مجھے ہلاک کرنے کا ہے مگر میرے دوست تمہاری یہ کوشش لاحاصل ہوگی۔ اب میں تمہیں اپنے بارے میں بتاتا ہوں۔ میرا نام عاطون ہے۔ میں مصر کے شاہی خاندان کا ایک فرد ہوں اور ہزاروں سالوں سے زندہ چلا آرہا ہوں۔ میں تاریخ کے ساتھ ساتھ سفر کر رہا ہوں۔ کسی وجہ سے مجھ میں ایک زبردست طاقت آگئی ہے جس نے مجھے موت سے نہ جانے کتنی مدت کے لئے آزاد کر دیا ہے اور میں مر نہیں سکتا۔ میں نے فرعونوں ، سمیریوں اور موہنجودڑو کی قوموں کے عروج و زوال دیکھے ہیں اور تمہارے سامنے بابل کی تہذیب و معاشرت کا نظارہ کر رہا ہوں۔ تمہارا راز مجھ پر فاش ہوچکا ہے۔ میں یہ بھی جانتا ہوں اور اصول و روایت کے مطابق اب تم مجھ سے الگ ہو جاؤ گے۔ مگر میں تم سے درخواست کروں گا کہ مجھ سے جدا ہونے کا خیال دل سے نکال دو۔ کیوں نہ آج سے ہم دونوں پکے دوست بن جائیں اور ایک دوسرے کے رازوں کی حفاظت کریں۔ ہم دونوں اپنے اپنے مقام پر حیرت انگیز طاقت کے مالک ہیں۔ ہم دونوں ناقابل یقین مدت تک زندہ رہ چکے ہیں۔ فی الحال تم مرسکتے ہو نہ میں مر سکتا ہوں۔ ہماری دوستی خوب رہے گی۔ ہم مل کر تاریخ کے عظیم دھارے پر سفر کریں گے اور انسانی تہذیب کے نشیب و فراز سے گذرتے ہوئے تاریخ کے عروج و زوال کے مناظر دیکھیں گے۔ تم اگر مجھ سے جدا ہوگئے تو تمہیں مجھ جیسا دوست اور راز دار کبھی نہیں ملے گا۔ اب بتاؤ تم کیا فیصلہ کرتے ہو اور میری بات کا کیا جواب دیتے ہو؟‘‘
اہرام مصر سے فرار۔۔۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 41پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میں قنطور کی طرف غور سے دیکھ رہا تھا۔ اس کے چہرے سیاہی ماند پڑچکی تھی اور آنکھوں کی سرخی غائب ہوگئی تھی۔ اس نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور گہری آواز اور پختہ لہجے میں بولا۔
’’ عاطون! میرا نام قنطور ہے ۔ میں مہاناگ ہوں اور مجھے زندگی بسر کرتے ہوئے پچھتر برس ہو گئے ہیں۔ پہلے ایک سو سال تک سانپ کے روپ میں زندہ تھا اور پچھتر برس سے انسانی شکل میں زندہ ہوں۔ تم پہلے شخص ہو جس پر میری زندگی کا سب سے اہم راز آشکار ہوا ہے لیکن مجھے خوشی ہوئی ہے کہ میرا یہ راز ایک ایسے شخص پر فاش ہوا ہے جو خود ایک محیرالعقول طاقت کا مالک ہے اور صدیوں سے زندہ چلا آرہا ہے۔ آض سے تم میرے دوست ہو اور تاریخ کی شاہراہ پر ہم دونوں ایک ساتھ مل کر سفر کریں گے۔ ‘‘
قنطور مجھ سے بغل گیر ہو گیا۔ ہماری کبھی نہ مٹنے والی دوستی کی بنیاد پڑ گئی ہم نے ہمیشہ ایک دوسرے کے وفادار وہنے اور زندگی کے آخری سانس تک ساتھ نبھانے کے عہد و پیمان کئے۔ قنطور کہنے لگا۔ ’’ اب ہمیں یہاں سے نکل کر واپس چلنا چاہئے۔‘‘
میں نے اس خطرے کا اظہار کیا۔ ’’ بابل کی شاہی فوج کے سپاہی مجھے پہچان گئے ہیں۔ وہ ہمارا پیچھا کریں گے۔ مجھے اپنا غم نہیں لیکن تمہاری فکر ہے۔ تم اگرچہ انسان سے سانپ بن سکتے ہو مگر وہ لوگ تمہیں موت کے گھاٹ اتار سکتے ہیں۔ ‘‘
قنطور نے کہا۔ ’’ اچھا ہوا کہ تم نے مجھے ایک بڑی اہم بات یاد دلا دی۔ اب جب کہ تم میرے دوست اور زندگی بھر کے ساتھی بن چکے ہو تو میں تمہیں اپنی زندگی کا ایک اور راز بتانا ضروری سمجھتا ہوں۔ اگر کبھی زندگی کے کسی مرحلے پر سانپ یا انسان کے روپ میں مجھ پر کبھی دشمن کا وار چل گیا اور میرا جسم تلوار سے دو ٹکڑے کر دیا تو یہ بات کبھی نہ بھولنا کہ میں اپنے کٹے ہوئے جسم کے ساتھ صرف چھ ماہ تک زندہ رہ سکوں گا۔ اس عرصے میں تم پر یہ فرض عائد ہوگا کہ میری کٹی ہوئی لاش کو لے کر ہمالیہ کے پہاڑ کیلاش پربت جاؤ۔ وہاں پہاڑ کے دامن میں شیش ناگ کا ایک قدیم دراوڑی مندر ہے ۔ اس مند کے عقب میں ایک گہرے سبز پانی کی ایک جھیل ہے۔ میری لاش کو کسی صندقچی میں بند کر کے اس جھیل میں ڈال دینا۔ جب چالیس روز گزر جائیں تو صندوقچی باہر نکال لینا اور میری لاش جو سانپ کی شکل میں ہوگی۔ جڑ گئی ہو گی اور میں زندہ ہوگیا ہوں گا۔ اگر تم چھ ماہ کے اندر اندر کیلاش پربت کے شیش ناگ مندر میں پہنچنے میں ناکام رہے تو میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس دنیا سے رخصت ہوجاؤں گا۔ میرا خیال ہے کہ تم میری بات کو اچھی طرح سمجھ گئے ہوگے؟‘‘
میں نے جواب میں کہا۔ ’’ تمہارا ایک ایک لفظ میرے دل پر نقش ہوگیا ہے۔ تم فکر مت کرو، اگر خدانخواستہ ایسا وقت آن پڑا تو میں پہلی فرصت میں تمہاری لاش لے کر کیلاش پربت کی طرف روانہ ہوجاؤں گا۔ ‘‘
قنطور بولا، ’’ اب میری تسلی ہوگئی ہے۔ چلو اس حویلی سے باہر نکلتے ہیں۔ اب رات ہوگئی ہوگی۔ بابلی کے گلی کوچے اندھیرے میں گم ہوگے ہوں گے۔ تمہیں کوئی نہیں پہچان سکے گا اور اگر کسی نے تم پر حملہ کر دیا تو میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ میرے لئے سانپ بن کر اسے ڈسنا معمولی بات ہے، آؤ۔‘‘
میں نے کہا، میں اپنی منگیتر نفتانی کے بارے میں معلوم کرنا چاہتا تھا اور اس لئے وہاں سے اس کے ساتھ آیا تھا۔ قنطور نے اپنی پیشانی پر آیا ہوا پسینہ پونچھ کر کہا۔ ’’ اب تمہیں اپنی منگیتر کے بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ اس کا نہ صرف سراغ لگانا بلکہ اس کو تمہارے پاس لانا اب میری ذمہ داری ہے۔ یہ کام میں خود کروں گا۔ اب یہاں سے نکل چلتے ہیں۔‘‘
گلی میں گھپ اندھیرا تھا۔ موڑ گھوم کر ہم بازار میں آئے تو دکانوں میں کہیں کہیں زیتون کے چراغ روشن تھے۔ ہمارے گھوڑے خدا جانے کہاں غائب ہوگئے تھے۔ شہر کا جنوبی دروازہ بھی کھلا تھا۔ ان دنوں ہنگامی حالات کی وجہ سے بابل شہر کے دروازے سر شام بند کر کے وہاں پہرہ بٹھا دیا جاتا تھا۔ ہم جنوبی دروازے سے گذر کر اپنے گاؤں کی طرف روانہ ہو گئے۔
میرے دوست قنطور نے گاؤں میں آکر مجھے بتایا کہ جب وہ میری یہیودی منگیتر نفتانی کے کان کا بندہ سونگھ کر شہر گیا تو اسے ایک حویلی میں سے اس کی بو آئی تھی اور یہ بو اس نے واضح طور پر اس لئے محسوس کرلی تھی کہ وہ ایک سانپ کی قوت شامہ رکھتا ہے۔ اس نے دوسرے دن میری محبوبہ نفتانی کی حویلی میں جانے کا پروگرام بنایا تھا۔ ہم رات گئے تک باتیں کرتے رہے۔ کمال کی بات یہ تھی کہ میری طرح قنطور بھی بھوک پیاس اور نیند سے بے نیاز تھا۔ وہ سانپ کی طرح ہنگامی حالات میں تھوڑا سا کھا کر کئی ماہ تک کھائے پئے بغیر زندہ رہ سکتا تھا۔ اگلے روز اس نے میری منگیتر کا بندہ لے کر دو بارہ سونگھا اور اس کی تلاش میں شہر کی طرف نکل گیا۔ نفتانی کے جسم کی بو اس کی رہنمائی کر رہی تھی۔ وہ بابل شہر کے مشرقی باغات کے پاس اس حویلی کے سامنے کر کررک گیا جہاں سے اس نفتانی کی تیز خوشبو آرہی تھی۔ اس حویلی کے برے دروازے پر ایک حبشی دربان پہرہ دے رہا تھا۔ قنطور باغ میں درختوں کی چھاؤں میں بیٹھ گیا۔ یہ سارے احوال اس نے مجھے بعد میں بتائے۔ وہ حویلی میں داخل ہونے کے بارے میں غور کرنے لگا۔ابھی اس میں سانپ کے علاوہ کوئی تیسری شکل اختیار کرنے کی کراماتی طاقت پیدا نہیں ہوئی تھی۔ وہ صرف سانپ کے روپ میں ہی حویلی میں داخل ہوسکتا تھا لیکن دن کے وقت سانپ بن کر حویلی میں جانا خطرے سے خالی نہ تھا۔ نظر پڑجانے پر اس پر حملہ ہو سکتا تھا پھر وہ کیا کرے؟ کیا اندھیرا ہو جانے کا انتظار کرے؟ قنطور نے مجھے بعد میں بتایا کہ اسے اس بات پر حیرت تھی کہ حویلی کا دروازہ بند تھا اور دیر سے نہ کوئی اندر داخل ہوا تھا اور نہ ہی باہر نکلا تھا۔ خدا جانے یہ کیسی پر اسرار حویلی تھی۔ حبشی دربان دروازے کے پاس پتھر کے چبوترے پر کمر میں تلوار لٹکائے پالتی مارے بت بنا بیٹھا تھا۔ میری محبوبہ نفتانی کی خوشبو حویلی کے اندر سے برابر آرہی تھی۔ حویلی پر جیسے ایک سوگ کی حالت طاری تھی۔
قنطور کو جب باغ میں بیٹھے کافی دیر ہوگئی اور حویلی کا دروازہ کھول کر کوئی بھی باہر نہ نکلا تو اس نے خود حویلی میں داخل ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ وہ حویلی کے اندر سانپ کی شکل میں ہی داخل ہوسکتا تھا۔ سانپ کا روپ اختیار کرنے میں اس کے لئے ضروری نہیں تھا کہ وہ صرف سفید کلغی والے مہاناگ کی شکل میں ہی ظاہر۔ وہ ہر قسم کا سانپ بن سکتا تھا۔ قنطور باغ سے اٹھ کر ٹہلتا ہوا حویلی کی مغربی دیوار کی طرف آگیا۔ اس دیوار پر جنگلی بیل چڑھی ہوئی تھی اور نیچے ایک کھائی تھی جو جھاڑ جھنکار سے بھری ہوئی تھی۔ قنطور کی بائیں جانب کچی سڑک تھی جو آگے جا کر شہر کے خاص دروازے کو جاتی سڑک سے مل جاتی تھی۔ ایک سوڈانی غلام رتھ دوڑاتا تیزی سے اس سڑک پر سے گذر گیا۔ رتھ کے آگے دو سیاہ گھوڑے جتے ہوئے تھے۔ یہ رتھ حویلی کے سامنے جا کر رک گیا اور رتھ پر سے اتر کر حویلی کے دروازے کی طرف بڑھا۔
قنطور سمجھ گیا کہ یہ غلام ہے اور حویلی کے مالک کے پاس کوئی پیغام لے کر آیا ہے۔ قنطور نے اپنے اردگرد دیکھا۔ وہ تسلی کرنا چاہتا تھا کہ اسے کوئی دیکھ تو نہیں رہا۔ کیونکہ وہ اپنی جون بدلنے والا تھا۔ باغ کا یہ ویران علاقہ تھا۔ قنطور پھر بھی کھائی کے قریب انجیر کے ایک پھیلے ہوئے درخت کے عقب میں آکر کھڑا ہوگیا۔ اس نے ایک بار پھر اپنے چاروں جانپ نگاہ ڈالی وہاں اس کے سوا اور کوئی نہیں تھا۔ قنطور نے دل ہی دل میں کوئی خاص منتر پڑھا اور آنکھیں بند کر کے اپنے سانس کو اوپر کی طرف کھینچا۔ جب سانس چھوڑا تو وہ مٹیالے رنگ کا ایک بالشت بھر کا داغ دار سانپ بن چکا تھا۔ اور انجیر کے درخت کے نیچے جہاں کھڑا تھا وہیں گھاس میں رینگ رہا تھا۔ اس طرح رینگتے ہوئے قنطور حویلی کی دیوار پر چڑھا اور ایک گول روشن دان سے اندر داخل ہوگیا۔ اس نے دیکھا کہ سامنے ایک چھوٹا سا باغیچہ ہے جس کے وسط میں بابل کے امیر گھرانوں کی طرح سنگ مر مر کا حوض بنا ہوا ہے۔ اردگرد اونچے ستونوں والا برآمد ہے اور برآمدے میں محرابی دروازوں والے کمرے بنے ہوئے ہیں۔ ایک کمرے کا دروازہ تھوڑا کھلا تھا۔ نفتانی کی خوشبو اس کمرے سے آرہی تھی۔ قنطور دیوار پر چھت سے تھوڑے فاصلے پر رینگتا ہوا اس کمرے کی چوکھٹ کے اوپر والے حصے پر آکر رک گیا۔ اس نے اپنی چھوٹی سی گردن اوپر اٹھائی اور زبان دو ایک بار لہرا کر حالات کا جائزہ لیا۔ نفتانی کی تیز انسانی خوشبو آرہی تھی۔ کمرے کا ایک پٹ تھوڑا سا کھلا ہوا تھا۔ اب اندر سے ایک مرد اور ایک عورت کے آہستہ آہستہ باتیں کرنے کی آوازیں آنے لگیں۔ قنطور رینگ کر دروازے کے ادھ کھلے پٹ میں سے گزرتا ہوا دوسرے طرف کمرے میں داخل ہوگیا۔ وہ داخل ہوتے ہی تیزی سے دیوار کے ساتھ نیچے کی جانب کھسک گیا اور کمرے پر ایک نگاہ ڈالی۔ یہ کمرہ بڑی نفاست سے سجایا گیا تھا۔ دیواروں پر کمخواب اور اطلس کے بھاری پردے گرے ہوئے تھے۔ قالینوں کا فرش بچھا تھا۔ کونے میں مسہری لگی تھی جس پر ایک سیاہ گھنگریالے بالوں اور نیلی آنکھوں والی حسین و جمیل عورت تکئے سے ٹیگ لگائے سو گوار بیٹھی تھی۔ اس نے سیاہ لباس پہن رکھا تھا۔ اس کے چہرے پر اداسی تھی۔ کانسی کی گول پتائی پر چاندی کی صراحی پڑی تھی اور چھت سے چاندی کا فانوس لٹک رہا تھا جس میں جواہرات جڑے تھے جو کمرے کی نیم روشنی میں چمک رہے تھے۔(جاری ہے)