خداراء حقائق کا ادراک کریں!
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس جاری ہے۔ دنیا بھر کے رکن ممالک کے وفود ان کے وزراء خارجہ کی قیادت میں شرکت کر رہے ہیں، روایت کے مطابق رکن ممالک کے سربراہ بھی خطاب کرتے ہیں اور عموماً آغاز امریکہ کے صدر کی تقریر سے ہوتا ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے کوئی خاص نئی بات تو نہیں کی۔ لیکن ان کے خطاب سے یہ ضرور ظاہر ہوا کہ افغانستان 20 سالہ جنگ ہارنے کے بعد بھی امریکہ نے خوشدلی سے شکست قبول نہیں کی اور اب ایک نئے انداز کی لڑائی شروع کر دی ہے، یہ معاشی حملہ ہے، افغانستان کے مرکزی بنک والے اربوں ڈالر کے اثاثے منجمد کر دیئے ہیں اور طالبان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ وسیع البنیاد حکومت بنائیں۔ امریکہ چاہتا ہے کہ اس آڑ میں ان کے حامی بھی کابینہ کا حصہ بنیں، اس سلسلے میں پاکستان پر پھر سے اثر استعمال کیا جا رہا ہے اور ہمارے وزیر خارجہ اور وزیر اعظم یہی فارمولا دہرا کر کہتے ہیں کہ پاکستان بھی وسیع البنیاد حکومت کے حق میں ہے، طالبان ایک سے زیادہ مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ ایسی حکومت خود بنائیں گے ان پر دباؤ نہیں ڈالا جا سکتا۔ یہ درست بھی ہے کہ طالبان فاتح ہیں اور وہ ان حضرات کو امور مملکت میں کس طرح شامل کر لیں جو اتحادی فوجوں کے ساتھ طالبان کے خلاف کام کرتے رہے، اگر مزید غور کرنا ہے تو حالیہ بیان دیکھ لیں جس میں طالبان حکومت کے ترجمان نے کہا کہ فاتح مجاہدین نے حکومت بنا لینے کے بعد عام معافی کا اعلان کیا ہے۔ اس لئے کسی طالب مجاہد کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ از خود کسی کے خلاف کارروائی کرے، حکمران جماعت اور حکومت کی طرف سے تعلیم کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ خواتین کے حوالے سے کہا گیا کہ ان کو بھی حقوق حاصل ہیں اور جلد ہی اسلامی احکام کے مطابق ان کی تعلیم اور معاشرتی حیثیت کا تعین کر دیا جائے گا اور یہ ان کا حق ہے جس کا احترام کیا جانا چاہئے اب تو طالبان نے علاقائی نسلی، لسانی اور مسلک کی بنیاد پر بھی کابینہ میں نمائندگی بڑھا دی ہے۔ اب مزید اعلان کیا گیا ہے کہ جرائم کے انسداد اور ارتکاب کرنے والوں کو بھی شرعی سزائیں دی جائیں گی کہ دوسروں کو عبرت ہو، ضرورت اس امر کی ہے کہ طالبان سے تعاون اور ان کی مدد کی جائے اور انتظار کیا جائے کہ وہ اگلے فیصلے کیا کرتے ہیں، یقیناً کسی نہ کسی خاتون کو ضرور شامل اقتدار کیا جائے گا۔ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بھی خواتین کے معاشرتی حقوق کے حوالے سے فیصلے کا حصہ ہوگا۔ اس لئے اگر ہم یا دنیا کے دوسرے ممالک اپنی روایات اور معاشرت کو مسلط کرنا چاہیں تو یہ قرین انصاف نہیں، افغانیوں کی اپنی ثقافتی روایات بھی ہیں اور پھر امارت اسلامی قائم کی گئی ہے۔ لہٰذا ان سے اگر توقعات رکھنا ہیں تو بہتر ہوگا کہ ان کے اصولوں کا بھی احترام کیا جائے۔ یہ بات درست ہے کہ اگر افغانستان معاشی طور پر مستحکم نہ ہوا تو دنیا کے لئے پریشانی ہی کا سبب بنے گا۔ اس لئے پاکستان کو بھی چاہیے کہ دنیا کے پیچھے لگنے کی بجائے حقیقت پسندانہ موقف ہی اختیار کیا جائے۔ جہاں تک حال ہی میں جلال آباد میں دھماکوں کا معاملہ ہے تو جنہوں نے فتح حاصل کی اور چالیس سال پہاڑوں اور جنگلوں میں گزارے وہ ایسی دہشت گردی بھی روک ہی لیں گے۔ اس لئے طالبان سے مغربی اطوار یا لبرل ازم کی توقع عبث ہے۔
جہاں تک وزیر اعظم کے ورچوئل خطاب اور شاہ محمود قریشی کی مصروفیات کا تعلق ہے تو بھارتی مقبوضہ کشمیر انسانی حقوق اور بھارت میں اقلیتوں کے خلاف متشدد کارروائیوں کو اجاگر کرنے کا کام تو اچھے طریقے سے کیا گیا اور وزیر اعظم نے بھی اپنی تقریر میں بھرپور حمایت اور وضاحت کی ہے، یہ بھی درست اور حق کی بات ہے کہ جب مجاہدین نے کشمیر کا معتدبہ حصہ آزاد کرا لیا اور یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جلد ہی سری نگر بھی زیر نگیں ہوگا تو اس وقت بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو ہی یہ مسئلہ سلامتی کونسل میں لے کر گئے اور انہوں نے ہی استصواب رائے والی قرارداد منظور کرائی کسی دانشور نے تحریر کیا ہے کہ اگر وہ زندہ رہتے تو شاید اپنے ”وچن کا پالن“ کرتے اور استصواب رائے ہو جاتا میں اس مفروضے کو نہیں مانتا پنڈت جواہر لال بھی مہلت ہی لے کر آئے اور وعدہ وفا کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے۔ اس کے لئے میرے پاس دلیل ریڈکلف ایوارڈ ہے۔ جس کی وجہ سے گورداسپور کی جگہ واہگہ بین الاقوامی سرحد ٹھہری اور تنازعہ کشمیر بنا جو اب بھی موجود ہے۔ یہ تاریخ ہی کا حصہ ہے کہ پنڈت جواہر لال نہرو نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو ان کی اہلیہ کے ذریعے مجبور کیا اور کمیشن بنوا کر تقسیم کے فارمولے کو تبدیل کرایا۔ بہر حال یہ تاریخ ہے اور تاریخ دان حضرات ذکر کر چکے ہوئے ہیں۔ مجھے تو یہ کہنا ہے کہ پاکستان کے دفتر خارجہ کی طرف سے جو بھی اور جیسا بھی ڈوزیئر تیار ہوا۔ اسے دنیا بھر کو پیش کرنے کا بہتر قدم اٹھایا گیا ہے۔ پاکستان کو اس پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے اس حوالے سے وزیر اعظم کا خطاب بھی بہتر تھا۔
میں یہ سب ذکر کر کے ایک بار پھر عرض کرتا ہوں کہ برسر اقتدار ہونا بھی ایک نعمت ضرور ہے لیکن جب اقتدار والے اسے مستقل جان لیں یا حتمی بنانے کی کوشش شروع کر دیں تو گڑبڑ ہوتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ بڑی بڑی مضبوط اور مستحکم حکومتوں والا اقتدار جاتے ہوئے وقت نہیں لگا۔ بہتر عمل یہ ہے کہ ملک کے اندر سیاسی استحکام کے لئے سیاسی اقدامات کئے جائیں۔ این آر او کا بیانیہ اب اپنا اثر کھو چکا ہے۔ اس لئے میری عرض تو یہی ہے کہ جس جس کے خلاف جو جو مقدمات بھی ہیں ان کا فیصلہ عدالتوں کو کرنے دیں اور خود ملک کے اندر کی فضاء کو ایسا بنائیں کہ دشمن فائدہ نہ اٹھا سکے۔ ملک کے اندرونی حالات اچھے نہیں ہیں۔ بھوک بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ آپ شوق سے فرانس کی ملکہ کے کیک کی بات کریں لیکن حقائق یہ ہیں کہ مہنگائی اور بے روزگاری عفریت کی شکل اختیار کر چکی۔ اس کے علاوہ وزیر اطلاعات یہ بھی اعتراف کر چکے کہ تنخواہ دار طبقہ کی آمدنی کم ہوئی ہے۔ شکر ہے کہ اتنی بات بھی ہوئی۔ ویسے تنخواہ دار طبقے کی حالت بہت ہی خراب ہے بلکہ ہر مقررہ آمدنی والا فرد انتہائی بری حالت میں ہے۔ ان کی سفید پوشی کا بھرم ختم ہو چکا اب تو کپڑے، جوتے خریدنا تو دور کی بات گھر کی دال روٹی پوری ہونا مشکل ہو گئی۔ اور علاج سے بہتر مرنے کی دعا ہونے لگی ہے۔ اس لئے عوام کی بہبود کا بھی خیال ہے تو داخلی امن اور استحکام کی طرف توجہ دیجئے کہ اسی سے بھلا ہوگا۔ میں نے دل کی بات کی ہے۔ اپنی روایات پر عمل ہی معاشرے کی بہتری ہے۔ ہم مسلمان ہیں تو نام کے کیوں۔؟