کراچی کے بُرے حالات، بلاول بھٹو کی پنجاب پر نظریں
کراچی کی مخدوش صورتحال پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد کے ریمارکس اب شاید سندھ حکومت کے لئے معمول کی بات بن چکے ہیں۔ وہ ایک کان سے سنتی اور دوسرے سے نکال دیتی ہے۔ حالیہ بارشوں کی وجہ سے کراچی میں جس طرح نظام زندگی مفلوج ہوا، اتفاق سے چیف جسٹس آف پاکستان سندھ رجسٹری میں کیسوں کی سماعت کر رہے تھے۔ کئی جگہوں سے گزرتے ہوئے انہوں نے خود اپنی آنکھوں سے کراچی میں خراب حالات دیکھے اور عدالت میں بیٹھ کے سندھ حکومت پر سخت تنقید کی۔ کراچی کے بارے میں کوئی سیاسی آدمی بات کرے تو پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کی طرف سے جوابی توپوں کا رخ ان کی طرف کر دیا جاتا ہے۔ مگر چیف جسٹس کے ریمارکس پر ان کی زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں کیونکہ عدالتِ عظمیٰ کے چیف جسٹس کسی سیاسی مخالفت کی وجہ سے نہیں بلکہ زمینی حقائق کی بنیاد پر سندھ حکومت کو بے شرمی اور ڈھٹائی کے طعنے دیتے ہیں ملک کا سب سے بڑا شہر ایک دن کی بارش سے ڈوب جاتا ہے، سڑکیں ندی نالوں کا منظر پیش کرنے لگتی ہیں، سیوریج کا نظام اتنے بڑے شہر کے لئے سرے سے موجود ہی نہیں کیونکہ شہر میں گزرنے والے نالوں پر تجاوزات اور چائنا کٹنگ کے ذریعے قبضے کرا دیئے گئے ہیں۔ سپریم کورٹ لگ بھگ دو برسوں سے یہ حکم دے رہی ہے کراچی کے گجر نالے کی صفائی اور اس پر تجاوزات کو ختم کرایا جائے مگر سندھ حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی اور اگلی تاریخ آ جاتی ہے۔ پھر دو چار دن کی جھاڑ پٹی ہوتی ہے، مراد علی شاہ اور ان کے وزراء چپ سادھے برداشت کر لیتے ہیں مگر کرتے کراتے کچھ نہیں کراچی اس قسم کے حالات سے گزر رہا ہے اور سب دیکھ رہے ہیں اس کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا کراچی کے بارے میں سپریم کورٹ کے ریمارکس پر سندھ حکومت کی یہ بے حسی پیپلزپارٹی کے حق میں ہے؟ کیا بلاول بھٹو زرداری جو پورے ملک کے وزیر اعظم بننے کی امید لگائے بیٹھے ہیں کیا ایسے ریمارکس کے بعد اپنی سیاست کو کمزور ہوتا نہیں دیکھتے، کیا انہیں اس بات کا ادراک نہیں کہ اگر کراچی کے حالات اسی طرح رہے اور پیپلزپارٹی اپنے تیسری مرتبہ کے اقتدار میں بھی اس کی حالت کو نہ بدل سکی تو اس کا ملک کے دیگر حصوں میں رہنے والے عوام کو کیا پیغام جائے گا؟ بلاول جنوبی پنجاب کے دورے پر آئے تو ایک ہی بات کرتے رہے، وسیب کی محرومیاں پیپلزپارٹی ختم کرے گی، اب ایسی باتوں کو جب لوگ کراچی اور سندھ کے تناظر میں دیکھیں گے تو انہیں کتنا ان پر یقین آئے گا۔ سندھ کو مثالی صوبہ اور کراچی کو مثالی شہر بنا کے پیپلزپارٹی پورے ملک کو یہ پیغام دے سکتی تھی کہ دیکھو ہم نے کس طرح گڈ گورننس کے ذریعے صوبے کے حالات بدلے ہیں۔ کراچی جیسے ترقی یافتہ اور روشنیوں کے شہر کو کھنڈرات میں تبدیل کر کے پیپلزپارٹی کس منہ سے یہ دعویٰ کرتی ہے وہ پنجاب اور باقی صوبوں میں ترقی کے ریکارڈ توڑ دے گی۔ وہی ترقی جو کراچی اور سندھ میں نظر آتی ہے اگر ملک کے دیگر حصوں میں بھی دیکھنے کو ملی تو شاید سپریم کورٹ کو اپنی ہر رجسٹری میں سماعت کے دوران یہی ریمارکس دینے پڑیں۔ پیپلزپارٹی ایک عرصہ تک قائم علی شاہ کے ذریعے سندھ حکومت چلاتی رہی جن کی معاملات پر گرفت تھی اور نہ پیرانہ سالی کی وجہ سے وہ امورِ حکومت چلا سکتے تھے۔ انہیں ایک ڈمی وزیر اعلیٰ بنا کے سارے کام بلاول ہاؤس کے ذریعے چلائے گئے۔ اب مراد علی شاہ بھی ایک ایسے ہی وزیر اعلیٰ ثابت ہو رہے ہیں، جنہیں صرف وزیر اعلیٰ کہلوانے میں دلچسپی ہے باقی سارے امور نجانے کہاں سے چلائے جاتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد کا یہ ریمارکس دینا سندھ میں ہر کوئی لوٹ کھوٹ میں لگا ہوا ہے، ہر کوئی پیسہ بنا رہا ہے، کسی کو شہریوں کے مسائل پر توجہ دینے کی فرصت نہیں، حقیقت سے بہت قریب ہے۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو کراچی سمیت پورے سندھ میں کچھ نہ کچھ تو ترقیاتی کام ہوتے۔ کراچی کے بارے میں تمام حقیقتیں اس لئے سامنے آ جاتی ہیں کہ وہ ملک کا سب سے بڑا شہر اور تجارتی حب ہے، وہاں میڈیا موجود ہے اور اس پر سب کی نظریں جمی رہتی ہیں۔ کراچی میں بارش کے بعد سڑکوں پر گاڑیاں تیرنے لگیں تو پورے ملک میں میڈیا کے ذریعے دیکھی جاتی ہیں لوگوں کے گھروں میں کئی کئی فٹ پانی داخل ہوتا ہے تو اس کے مناظر ملک بھر کے گھروں میں دیکھے جاتے ہیں۔ یہ بارش کے دنوں کی بات ہے صفائی کے معاملے میں کراچی کی صورتِ حال سب کے سامنے آ چکی ہے۔ جس شہر کا سب سے بڑا مسئلہ یہ بن گیا ہو کہ کچرے کو ٹھکانے کہاں لگانا ہے، اس شہر کی صفائی ستھرائی کے بارے میں کسی تبصرے کی چنداں ضرورت نہیں۔ روشنیوں کا شہر اب رات ہوتے ہی تاریکی میں ڈوب جاتا ہے کیونکہ سٹریٹ لائٹس ناپید ہو چکی ہیں کراچی پر تنقید تو ہر سیاسی جماعت چاہتی ہے، مگر مل جل کر اس کے مسائل حل کرنے پر کوئی تیار نہیں۔ اس وقت بھی تحریک انصاف کی وفاقی حکومت اور پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت باہم اتحاد سے شہر کی حالت بدلنے کے لئے کوششیں نہیں کر رہیں۔ وفاقی حکومت اپنی گرانٹ گورنر ہاؤس کے ذریعے خرچ کر رہی ہے۔ گرین لائن بسیں کراچی میں پہنچ گئی ہیں، مگر سوال پھر وہی ہے یہ بسیں چلیں گی کن سڑکوں پر جن کی حالت خراب ہے اور کئی کئی فٹ کے گڑھے پڑے ہوئے ہیں۔ شہر کا انفراسٹرکچر جب تک بہتر نہیں بنایا جاتا شہر کی حالت کیسے بدلے گی۔ اب پیپلزپارٹی کراچی بلدیہ کا ایڈمنسٹریٹر بھی اپنالے آئی ہے اب تو اس کے پاس یہ بہانہ بھی نہیں کہ بلدیہ والے کچھ نہیں کر رہے، سابق میئر کراچی وسیم اختر کے زمانے میں دونوں کی طرف سے سپریم کورٹ میں یہی رپورٹ جمع کرائی جاتی رہی میئر کام نہیں کر رہے اور میئر کے لئے سندھ حکومت فنڈز نہیں دے رہی اب تو بلدیہ بھی پیپلزپارٹی کے پاس ہے پھر کراچی کے حالات بہتر بنانے میں کیا امر مانع ہے۔؟
آصف علی زراری اور بلاول بھٹو زرداری شاید یہ سمجھتے ہوں سندھ میں مور ناچا کس نے دیکھا۔ ہمیں تو پورے ملک کی سیاست کرنی ہے پورے ملک میں حکمرانی کے جھنڈے گاڑنے ہیں نہیں صاحب ایسا اب ممکن نہیں، ہاں آپ سندھ میں بھی اپوزیشن جماعت ہوتے تو یہ دعویٰ کر سکتے تھے اقتدار میں آئیں گے تو ملک کے عوام کی تقدیر بدل دیں گے۔ مگر یہ سندھ پر تین بار کی مسلسل حکومت گلے کا ایسا طوق ہے جسے اتارنا بھی چاہیں تو نہیں اتار سکتے۔ اس طوق نے فیصلہ کرنا ہے پیپلزپارٹی مستقبل کی سیاست میں کہاں کھڑی ہو گی۔ اگر تحریک انصاف یہ دعویٰ کرتی ہے آئندہ سندھ میں بھی وہ حکومت بنائے گی تو اس کے دعوے کو کئی تحفظات کے باوجود یکسر رد نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن پیپلزپارٹی سندھ میں اپنی خراب کارکردگی کے باوجود اگر ملک پر حکمرانی کے خواب دیکھ رہی ہے تو ان کی تعبیر کچھ اچھی نکلتی دکھائی نہیں دیتی۔ یہ ہو نہیں سکتا سپریم کورٹ بار بار سندھ حکومت کو شرم دلائے کہ وہ اپنی کارکردگی بہتر کرے اور اس پر ذرہ بھر اثر نہ ہو مگر دوسری طرف بلاول بھٹو زرداری پنجاب آکر ترقی و خوشحالی کے ڈھنڈورے پیٹیں اور لوگ ان پر یقین کر لیں۔ نہیں صاحب اب یہ دو عملی نہیں چلے گی۔