شادی کے روز دولہا کو گاؤں کا چکر لگوایا جاتا,مسجد میں جا کر سلام کرتا، گھر کی قریبی خواتین اس کی پگڑی کا پلو پکڑے ساتھ ساتھ چلتیں، ولیمہ نکاح سے پہلے ہی ہو جاتاتھا

 شادی کے روز دولہا کو گاؤں کا چکر لگوایا جاتا,مسجد میں جا کر سلام کرتا، گھر کی ...
 شادی کے روز دولہا کو گاؤں کا چکر لگوایا جاتا,مسجد میں جا کر سلام کرتا، گھر کی قریبی خواتین اس کی پگڑی کا پلو پکڑے ساتھ ساتھ چلتیں، ولیمہ نکاح سے پہلے ہی ہو جاتاتھا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمد سعید جاوید
قسط:47
شادی کے روز دولہا کو گاؤں کا چکر لگوایا جاتا اور پھر وہ مسجد میں جا کر سلام کرتا، اسی دوران گھر کی قریبی خواتین اس کی پگڑی کا پلو پکڑے ساتھ ساتھ چلتیں، پیچھے دعاؤں بھرے روائیتی گیت گاتے ہوئے عورتیں اور بچے ان کا ساتھ دیتے۔ دلچسپ امر یہ تھا کہ ولیمہ نکاح سے پہلے ہی ہو جاتاتھا۔ میرے ذہن میں اکثریہ شیطانی خیال آجاتا کہ اگر کسی وجہ سے بات نہ بنے اور بارات خالی لوٹ آئے تو پیشگی ولیمے کا کیا بنے گا۔ دولہا بیاہنے کے لیے جاتا تو پیچھے صرف عورتیں ہی رہ جاتی تھیں کیونکہ اس وقت خواتین کو بارات کے ساتھ جانے کی اجازت نہیں تھی۔
 بارا ت و لیمہ کھا کر بیاہنے نکل جاتی تھی،رات کو اسے دولہن کے گاؤں میں ہی قیام کرنا ہوتا تھا جہاں ایک میدان یا گاؤں کے بڑے چوک میں درجنوں چارپائیاں اپنے صاف ستھرے بستروں کے ساتھ ان کی منتظر ہوتیں۔ ان کی خوب خاطر مدارات کی جاتی اور اگلے روز نکاح اور ضیافت کے بعد دولہن ان کے حوالے کر کے بارات کو رخصت کر دیا جاتا۔    
 ہمارے تایا نور محمد اور بٹّھل ماموں کو شادی بیاہ کا کھانا تقسیم کرنے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر منتخب کیا جاتا تھا۔ جہاں ان کا سب سے پسندیدہ کام شادی بیاہ کی دیگوں پر بیٹھنا ہوتا تھا۔ شادی کا کھانا اس وقت سالن، روٹی یا زردے پر مشتمل ہوتا تھا۔سالن مٹی کی پیالیوں میں دیا جاتا تھا، دیگ پر بیٹھا ہوا ور تاوہ پہلے سے نکالی گئی بوٹیوں میں سے ایک بوٹی پیالی میں رکھ دیتا اور پھر ڈھیر سارا شوربا دیگ میں سے نکال کر اس میں ڈال کر رضاکار بچے کے حوالے کر دیتا۔ اسی دوران کچھ لڑکے پیتل کے ڈولوں میں کم بوٹیاں اور زیادہ شوربا لے کر قطار میں نیچے بیٹھے ہوئے لوگوں میں گھومتے پھرتے تھے، اپنے دوست کو یا کسی خاص سفارشی بندے کو وہ بوٹی بھی ڈال دیا کرتے تھے ورنہ عام بندے کے حصے میں پتلا شوربہ ہی آتا تھا۔ 
دیگ پر بیٹھا ہوا بٹّھل ماموں ہر دو تین پیالیاں دینے کے بعد کن انکھیوں سے اِدھر اُدھر دیکھتا اور پھر پاس پڑی ہوئی پرات میں سے یک لخت تین چار بوٹیاں براہ راست اس کے پیٹ میں منتقل ہو جاتیں تھیں۔چہرے پر معصومیت طاری رہتی تھی جبکہ باچھوں سے ٹپکتا ہوا شوربہ کچھ اور ہی کہانی سنا رہا ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ، کھانا ختم ہونے کے بعد وہ اپنے چند دوستوں اور رضاکاروں کے ساتھ وہیں پھسکڑا مار کر بیٹھ جاتا اور جب تک آخری بوٹی اور شوربہ دیگ میں باقی رہتا وہ خوراک کے ساتھ انصاف کرتے جاتے۔ شادی کی رسمیں بھگتوانے کے بعد بٹّھل ماموں قیلولہ میں چلا جاتا اور گوشت کا چڑھا ہوا خمار اسے کچھ ساعتوں تک دنیا و مافیہا سے بے خبر کر دیتا تھا۔
امن و عامہ
گاؤں میں تو معمولی سے جرم بھی نہ ہونے کے برابر تھے کہاں کسی کا قتل ہو جانا، اسی گاؤں کا ایک بندہ فورٹ عباس جانے کے لیے نکلا تھاتو راستے میں ریت کے ٹیلوں اور اجاڑ بیابان میں کسی نے پیسوں کی خاطر اس کو ڈنڈے مار کر ہلاک کر دیا۔ شام کو جب اس کی لاش گھر لائی گئی تو گاؤں میں سناّٹا چھا گیا، لوگ خوفزدہ ہو گئے کسی کو یقین بھی نہیں آتا تھا کہ ان کے گاؤں کے کسی بندے کے ساتھ یہ سب کچھ ہو گیا تھا۔بہت سالوں تک اس کی موت کے قصے چلتے رہے، ان دنوں کوئی بھی شہر جانے کے لیے نکلتا تو ایک لمحے کے لیے سب خوفزدہ ضرور ہو جاتے تھے۔ وہ تو تعلیم اور ہنر نہیں تھا کسی کے پاس ورنہ اس قسم کی موت پر منظوم قصے بن جاتے۔ سارا گاؤں اس کی موت کے کرب اور خوف میں اس وقت تک مبتلا رہا جب تک کہ گاؤں اس جرم میں خود کفیل نہ ہو گیا۔جب ایک اور بندہ گاؤں کے اندر ہی ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ایک چودھری کے ہاتھوں مارا گیا تو یہ واقعہ مدّتوں موضوع ِ بحث بنا رہا۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بْک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -