آپ کا ذہن آپ کا خدمت گزار ہے اور آپ کی ہر خدمت بجالائے گا،یہ آپ کے احکامات کو خودکار طریقے کے تحت بجا لاتا ہے

مصنف: ڈاکٹر جوزف مرفی
مترجم: ریاض محمود انجم
قسط:52
ماورائی اور غائبانہ طریقۂ شفایابی:
فرض کریں کہ آپ کومعلوم ہوا کہ نیویارک میں موجود آپ کی والدہ بیمار ہے اور آپ اس وقت لاس اینجلس (Los Angeles) میں ہیں۔ جہاں آپ موجود ہیں، وہاں آپ کی والدہ جسمانی طور پر موجود نہیں ہو سکتی، لیکن آپ اپنی والدہ کی صحت کیلئے دعا کر سکتے ہیں۔
”یہ آسمانی باپ ہی ہے جوآپ کے تمام کام کرتا ہے۔“
آپ کے ذہن کا تخلیقی اصول / قانون (تحت الشعوری ذہن) آپ کا خدمت گزار ہے اور آپ کی ہر خدمت بجالائے گا۔ یہ آپ کے احکامات کو خودکار طریقے کے تحت بجا لاتا ہے۔ آپ کے علاج کا مقصد یہ ہے کہ آپ کے ذہن میں صحت، شفا اور ہم آہنگی کا داخلی احساس پیدا کیا جائے۔ یہ داخلی احساس، آپ کے تحت الشعوری ذہن کے ذریعے کام کرتا ہے اور آپ کی والدہ کے تحت الشعوری ذہن میں بھی یہی داخلی احساس کارفرما ہوتا ہے کیونکہ صرف ایک اور واحد تخلیقی ذہن کا وجود ہے۔ صحت، شفا، توانائی اور بھرپور خوشحالی پر مشتمل خیالات ایک ہی مشترک اور یکساں ذہن کے کام کرتے ہیں اور زندگی کے داخلی حوالے سے ”قانون حرکت“ کاکردار ادا کرتے ہیں جس کا اظہار بدن میں صحت اور شفا کی آمد کے ذریعے ہوتا ہے۔
ذہن کے حوالے سے زمان و مکان کا کوئی تصور نہیں ہے۔ یہ وہی ذہن ہے جو آپ کی والدہ میں، اس کے کہیں بھی موجود ہونے کے باوجود کام کرتا ہے۔ درحقیقت حاضر شخص کے علاج کے مقابلے میں غیرحاضر شخص کے علاج کا کوئی تصور نہیں ہے کیونکہ ایک آفاقی اور واحد ذہن، ہر جگہ اور ہر وقت موجود رہتا ہے۔ آپ یہ کوشش نہیں کر سکتے کہ خیالات کی آمدورفت رک جائے۔ آپ کا علاج، آپ کے خیالات کی شعوری حرکت کا نام ہے او رجب آپ شعوری طور پر صحت، شفا، فلاح و بہبود اور آرام و سکون کی خوبیوں سے واقف ہو جاتے ہیں، تو یہ خوبیاں آپ کی والدہ کے افعال میں سرایت کر جائیں گی، اور نتائج آپ کے سامنے ہوں گے۔
”ماورائی اور غائبانہ طریقۂ شفایابی“ کی اصطلاح کے مفہوم کی وضاحت کیلئے ایک نہایت ہی واضح اور مکمل مثال پیش خدمت ہے۔ حال ہی میں لاس اینجلس میں رہنے والی ایک خاتون نے جو ہمارے لاس اینجلس ریڈیو پروگراموں کی سامع تھی، نیویارک میں موجود اپنی والدہ کیلئے یوں دعا مانگی۔
اس خاتون کی والدہ دل کے امراض میں مبتلا تھی۔
”صحت و شفا کے حصول کا یہ عمل وہیں کارگر ہے جہاں میری والدہ موجود ہے۔ اس کے بدن کی حالت، اس کے خیالات کی اس طرح عکاس ہے جیسے پردے پر سائے دکھائی دیتے ہیں اور میں یہ بھی جانتی ہوں کہ پردے پر عکس تبدیل کرنے کیلئے مجھے خیالات بھی تبدیل کرنے پڑیں گے۔ میرا ذہن بھی ایک ایسی آماجگاہ ہے اور میں اس آماجگاہ میں اپنی والدہ کیلئے مکمل صحت، ہم آہنگی جیسے خیالات داخل کروں گی۔ میری والدہ کے بدن کو تخلیق کرنے والی لامحدود شفائی قوت و صلاحیت کی موجودگی اور میری والدہ کے تمام اعضاء اس کی ذات، اس کی زندگی کے تمام خلیوں کو تروتازگی بخش رہے ہیں، اور میری والد کے بدن کے ہر خلیے میں سے امن وسکون اور راحت کی لہریں امڈی پڑ رہی ہیں۔ ڈاکٹروں کو روحانی طور پر راہنمائی فراہم ہو رہی ہے اور جو بھی شخص جو میری والدہ کو چھوتا ہے، اس کی صحیح رخ کی طرف راہنمائی کر دی جاتی ہے۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ یہ بیماری اب زیادہ دیر تک موجود نہیں رہے گی، اور اگر رہی تو کوئی بھی شخص اس کا علاج نہیں کر سکے گا۔ اب میں اپنی ذات کو محبت اور زندگی کے لازوال اصول کے ساتھ وابستہ کرتی ہوں اور اب مجھے خبر ہو چکی ہے کہ صحت، شفا اور تندرستی مری والدہ کے نصیب میں لکھی جا چکی ہے۔“
اس خاتون نے ایک دن میں متعدد بار یہ دعا مانگنے کا سلسلہ جاری رکھا اور چند ہی دنوں بعد اس کی والدہ کی صحت نہایت ہی شاندار انداز میں بحال ہو گئی۔ والدہ کے علاج پر مامور ماہرینِ امراض دل حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ انہوں نے اپنی مریضہ کی خداتعالیٰ کی ذات پر اعتقاد و ایمان کا مظاہرہ کرنے پر بہت تعریف کی۔
اس والدہ کی بیٹی کے ذہن میں حتمی نتیجہ یہ ظاہر ہوا کہ زندگی کے داخلی پہلو کے لحاظ سے ”قانون حرکت“ کارفرما ہوتا ہے جو اس کی والدہ کے ذہن میں مکمل صحت و تندرستی کی شکل میں ظاہر ہوا۔ اپنی والدہ کے بارے میں اس کی بیٹی نے جو کچھ بھی صحیح اور سچ تصور کیا، وہ اسی وقت اس کی والدہ میں صحت و شفا کی صورت میں ظاہر ہو ا۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بْک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔