مرد کو سمجھنا جان جوکھوں کا کام ہے،خود ریزہ ریزہ ہو کر ہی بند خول سے نکالا جا سکتا ہے، شخصیت کی ہر پرت آگاہی کیلئے خونِ دل کا خراج مانگتی ہے

مصنف:یاسمین پرویز
قسط:17
صبح نو
دسمبر کی ملگجی دھوپ، کسی الہڑ مٹیار کی طرح اٹھکیلیاں کرتی، کبھی اپنا رُخ روشن دکھاتی اور کبھی بدلیوں میں چھپا لیتی۔
لڑکیوں کے کالج کے سٹاف روم میں اساتذہ خوش گپیوں میں مصروف تھیں۔ ڈیوٹی پر مامور ملازمہ بڑے سلیقے سے چائے اور کافی پیالیوں میں انڈیل رہی تھی۔ میز پر سجے نرگس کے تازہ پھول قوت شامہ و باصرہ کو طراوت پہنچا رہے تھے۔
چائے کے وقفے کے دوران، روزانہ کسی نہ کسی بات پر اساتذہ کے مابین بحث و تمحیص کا ہونا لازم تھا۔ آج نہ جانے کیسے موضوع بحث مرد کی ذات تھی۔ ریاضی کی استاد رابعہ نے بڑی سنجیدگی سے اپنی رائے پیش کرتے ہوئے مرد کو ریاضی کا ایسا سوال گردانا جسے جتنی مرتبہ حل کرو، ہر بار جو اب مختلف آتا ہے۔ یوں زندگی فارمولے آزمانے میں ہی گزر جاتی ہے۔ ابھی اس کی بات بمشکل مکمل ہوئی تھی کہ نفسیات کی پروفیسر روحی گویا ہوئی ”مرد کو سمجھنا مشکل سہی مگر ناممکن نہیں۔ البتہ جان جوکھوں کا کام ضرور ہے۔ خود ریزہ ریزہ ہو کر ہی کسی دوسرے کو اس کی شخصیت کے بند خول سے نکالا جا سکتا ہے۔ شخصیت کی ہر پرت آگاہی کے لیے خونِ دل کا خراج مانگتی ہے۔“
اردو ادب کی استاد روبی نے گلابی ساری کا پلو شانوں پہ ٹکایا اور شامل بحث ہوئی ”دراصل مرد ایسی عورت سے متاثر تو ہوتے ہیں جو دانشور ہو، ادیبہ ہو، شاعرہ ہو، مگر ہمسفر کے روپ میں انہیں جیتی جاگتی، پراعتماد اور توانا شخصیت کی حامل عورت نہیں بلکہ اپنے اشاروں پر ناچتی کٹھ پتلی ہی پسند آتی ہے۔“ روبی کا تلخ لہجہ بہت کچھ کہہ گیا تھا۔ چند لمحوں کے توقف کے بعد وہ دوبارہ محو گفتگو ہوئی ”شخصیت کی شکست و ریخت بڑی اذیت ناک ہوتی ہے۔ خود کو خود سے جدا کرنا بڑا کٹھن اور صبر آزما ہوتا ہے۔“
نٹ کھٹ ہما موضوع بدلنے کی کوشش کرتے ہوئے مخاطب ہوئی ”ارے چھوڑو یہ سنجیدہ باتیں اور حسین موسم سے لطف اندوز ہو۔ مختصر سی زندگی میں دل ناتواں پہ اتنے غموں کا بوجھ کیوں لاد رکھا ہے؟ باہر دیکھو موسم کتنا سہانا ہو گیا ہے۔“ مگر ہما کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے اپنی دھن میں مگن رعنا بول اٹھی ”موسموں کا تعلق تو دل سے جڑا ہوتا ہے۔ آسمان دل پہ غم کے بادل چھائے ہوں تو آنسوؤں کی برسات دل کی زمین کو طوفان سے ہمکنار کر دیتی ہے اور بعض مرتبہ آنکھیں نم بھی نہیں ہو پاتیں مگر من میں سیلاب کا سماں ہوتا ہے۔“ لمحہ بھر کے توقف کے بعد وہ پھر بول اٹھی ”دراصل ہماری زندگی کی ساری مسرتیں اور غم اس ایک شخص سے وابستہ ہو جاتی ہیں جو کہنے کو تو ہمسفر ہوتاہے مگر دراصل کسی اور ہی منزل کا مسافر ہوتا ہے۔“ اس کی زندگی کا دکھ اس کے لہجے میں سمٹ آیا تھا۔
”آج ہماری دانشور سہیلی کیوں مہر بہ لب ہے؟ علم و حکمت کے موتی چننے سے ہمیں کیوں محروم رکھا جا رہا ہے؟“ تبسم نے مسکراتے ہوئے سیما کو اظہار رائے کی دعوت دی مگر سیما نے ناسازیٔ طبع کا بہانہ بناتے ہوئے بات ٹال دی۔ دراصل آج سٹاف روم میں ہونے والی گفتگو نے اس کے اندر ایک ایسا الاؤ روشن کر دیا تھا جس کی آنچ میں وہ دھیرے دھیرے سلگ رہی تھی۔ وہ بخوبی جانتی تھی کہ سٹاف روم میں ہونے والی آج کی گفتگو کا ہر لفظ سچائی پر مبنی تھا۔
اس کے لیکچر کا وقت ہو گیا تھا لہٰذا ذہن میں سلگنے والے سوچ کے الاؤ کو حسب معمول مسکراہٹ کے پردے میں چھپا کر وہ لیکچر روم کی طرف چل دی۔ کلاس روم میں پہنچتے ہی جیسے کسی نے اس کے اندر ایک نئی روح پھونک دی۔ طالبات اس کی باغ و بہار شخصیت کے سحر میں مکمل طور پر گرفتار تھیں۔ اس کا لیکچر جہاں اس کی مضمون پر مکمل دسترس کا منہ بولتا ثبوت ہوتا، وہاں انداز بیان اتنا دلچسپ اور زندگی سے بھرپور ہوتا کہ سامع کی توجہ کو بھٹکنے ہی نہ دیتا۔ گویا نسل نو کی نبض پہ اس کی گرفت بہت مضبوط تھی، اور گلشن کی آبیاری کا یہ انداز بڑا حسین تھا۔
شام کے وقت جب وہ اپنے گھر کے لان میں، پھولوں کی کیاریوں کے پاس بیٹھی، کافی سے لطف اندوز ہو رہی تھی، تو خیالات کے تانے بانے اسے حال سے ماضی میں لے گئے۔
اسے یونیورسٹی کا زمانہ یاد آ گیا، جب وہ ہر تقریب کی روح رواں تھی۔ اس کی شرکت کے بغیر کچھ بھی ممکن نہ تھا۔ وہ نہ صرف یونیورسٹی کی بہترین مقررہ تھی بلکہ سٹوڈنٹس یونین کی صدر بھی تھی۔ یوں تقریبات کا انتظام و انعقاد اسی کے دائرہ کار میں تھا، جو اس کی مقناطیسی شخصیت اور قائدانہ صلاحیتوں کے باعث بحسن و خوبی سرانجام پاتا۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بْک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)