مظفر آباد(آئی این پی) آزاد جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی اور وفاقی وزرا کے درمیان ہونے والے طویل مذاکرات بے نتیجہ ختم ہوگئے۔ وزیراعظم پاکستان کی ہدایت پر دو وفاقی وزرا طارق فضل چوہدری اور انجینئر امیر مقام آزاد جموں و کشمیر کے دارلحکومت مظفر آباد پہنچے اور مذاکرات میں ثالثی کی کوشش کی۔ بدھ کو جمعرا ت کی درمیانی رات طویل مذاکرات کا دور چلا جو 13گھنٹے تک جاری رہا۔ مذاکرات میں آزادکشمیر حکومت کے دو وزرا فیصل ممتاز راٹھور اور دیوان چغتائی بھی شریک ہوئے جبکہ تین ڈویژنز سے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے نمائندوں نے شرک کی۔حکومتی ذرائع کے مطابق مذاکرات کے دوران جب بھی معاہدے کی صورت بنتی، جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی جانب سے نئے مطالبات پیش کر دئیے جاتے۔ عوامی ایکشن کمیٹی کی ضد اور غیرلچکدار رویہ مذاکرات کی ناکامی کا سبب بنا اور مذاکرات کے دوران ایکشن کمیٹی کے مطالبات بدلتے رہے۔حکومتی ذرائع نے کا کہنا ہے کہ ہر معاہدے کے بعد ایکشن کمیٹی نئی شرائط سامنے لے آتی، تاجروں کے لئے بجلی پر مزید سبسڈی اور ججز کی پنشن ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ بجلی سبسڈی کا یہ مطالبہ گھریلو صارفین کے دائرہ کار سے ہٹ کر پایا۔ اس کے علاوہ، ایکشن کمیٹی نے جج صاحبان کی پنشن ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ تاہم بعد میں بات چیت بے نتیجہ ختم ہوگئی۔اس موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر طارق فضل چوہدری نے کہا ہے کہ چار سے چھ لوگ آئین میں ترمیم نہیں کرسکتے، اس کے لئے پارلیمنٹ جانا ہوگا۔ طارق فضل چوہدری نے کہا کہ عوامی ایکشن کمیٹی کا ایجنڈا ہماری سمجھ سے باہر ہے، ایکشن کمیٹی جو میسج دینے کی کوشش کر رہی ہے وہ کشمیری عوام کا نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر وہ مذاکرات کی بات کرنا چاہیں تو ہمارے دروازے بند نہیں ہیں، کسی کو راستے بند کرنے اور زبردستی دکانیں بند کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔اس موقع پر وفاقی وزیر امور کشمیر امیر مقام نے کہا کہ ہم نے عوامی ایکشن کمیٹی کے تمام جائز مطالبات مان لئے تھے، جو مطالبات ہمارے اختیار میں تھے وہ ہم نے مان لئے تھے۔امیر مقام نے کہا کہ ہم نے ان کے مطالبات مان لیے تو وہ نئی لسٹ لے کر آگئے، وہ بعد میں ایسے مطالبات لے آئے جن کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومتی وزرا کی تنخواہ وغیرہ طے کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے۔ دوسری جانب مذاکرات کی ناکامی کے بعد ایکشن کمیٹی رہنماؤں نے کہا ہم نے مذاکرات سنجیدگی کے ساتھ کئے۔ ہماری کوشش تھی مذاکرات کامیاب ہوجائیں۔حکومت کی جانب سے ہمارے بیشتر مطالبات مان لئے تھے لیکن اشرافیہ کی مراعات اور مہاجرین کی نشستوں پر حکومت کے بے لچک موقف کے باعث مذاکرات کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔انکا کہناتھا کہ ہمار دروازے مذاکرات کے لئے کھلے ہیں تاہم 29 ستمبر کے لاک ڈاؤن کی کال برقرار رہے گی۔
مذاکرات بے نتیجہ