”زبان میری ہے بات اُن کی!“

Sep 26, 2025

ناصرہ عتیق

 امر واقع یہ ہے کہ ایوانِ عدل سے سنائے گئے ایک فیصلے نے انصاف کے ایوانوں سے متعلقہ قانون دان حلقوں میں ایک ہلچل، تھرتھلی اور اضطراب سا پیدا کر دیا، فیصلہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی طرف سے ہوا،کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے تک بطور جج کام  کرنے سے روکنے کا حکم دیا ہے۔اس حوالے سے اسلام آباد ہائیکورٹ کی طرف سے دو صفحات پر مشتمل حکمنامہ جاری کیا گیا جو چیف جسٹس اسلام آباد  ہائیکورٹ سرفراز ڈوگر اور جسٹس اعظم خان کی طرف سے تحریر ہوا۔تحریری حکمنامہ میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ جوڈیشنل کونسل کے فیصلے تک جسٹس جہانگیری کو کام سے روکا جا رہا ہے۔اس کیس میں جج کی اہلیت سے متعلق سوال ہے۔اِس فیصلے کے خلاف بطور احتجاج وکلاء نے جزوی طور پر  ہڑتال بھی کی۔

اس صورتحال میں انصاف کے اونچے ایوان میں کچھ ایسا اضطراب بھی دیکھنے میں اہل وطن کو مل رہا ہے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو کام سے روکنے کے معاملے پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچ فاضل جج صاحبان حصولِ انصاف کے لئے سپریم کورٹ جا پہنچے۔مسٹر جسٹس محسن اختر کیانی نے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ ہم جسٹس ڈوگر کے بنچ کے ساتھ نہیں بیٹھ رہے ہمارا ہمیشہ عدل و انصاف کے ساتھ قانون پر یقین رہا ہے۔ایک صحافی کے سوال پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ بطور درخواست گزار میں ویسے ہی محسوس کر رہا ہوں جیسے ایک عام پاکستانی محسوس کرتا ہے۔صحافیوں نے ان سے ذاتی رائے دینے کا تقاضا کیا جس پر انہوں نے کہا کہ کیمرے کے سامنے ذاتی رائے نہیں ہوتی۔انہوں نے ایک موقع پر یہ بھی کہا کہ وہ ہائیکورٹ میں زیر سماعت تمام کیسز نمٹا کر ہی آئے ہیں۔ وکالت سے متعلق  ایک سوال پر ان کا یہ جواب بھی بڑا دلچسپ تھا کہ اگر میں کسی وکلاء تنظیم کا سربراہ ہوتا تو آج کل وکالت کر رہا ہوتا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ وکالت کا معیار کیسا ہے۔چیف جسٹس کے بنائے گئے بنچز سے متعلق سوال پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچ ججز نے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کے مختلف انتظامی اقدامات کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔درخواست سپریم کورٹ میں آرٹیکل 184(3) کے تحت دائر کی گئی ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ جج کو کام سے روکنے کی کوئی بھی درخواست ہائیکورٹ میں قابل سماعت نہیں۔کسی جج کو صرف آرٹیکل209 کے تحت ہی فرائض سے روکا جا سکتا ہے۔چیف جسٹس آرٹیکل202ء کے تحت بنے رولز کے مطابق ہی بنچ تشکیل دے سکتے ہیں۔ماسٹر آف روسٹر کا نظریہ سپریم کورٹ پہلے ہی کالعدم قرار دے چکی ہے، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انتظامی کمیٹیوں کے 3فروری اور 15جولائی کے نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیئے جائیں اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم غیر قانونی قرار دیئے جائیں۔ ہائیکورٹ آرٹیکل199 کے تحت اپنے آپ کوئی رٹ جاری نہیں کر سکتی۔چیف جسٹس اپنی منشاء کے مطابق بنچ کی تشکیل میں تبدیلی یا ججز کو روسٹر سے الگ کرنے کے مجاز نہیں۔اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہو گا۔ جسٹس طارق محمود جہانگیری کو کام سے روک دینے کا فیصلہ ایک طرح سے عدلیہ میں کلاؤڈ برسٹ کی طرح تھا جس کے نتیجے میں ججز کی سطح پر احتجاج کی ایک ایسی لہر منظر عام پر آئی کہ ملکی عدلیہ کی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے اور جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔اس کے علاوہ بھی عدالت عالیہ کے ججوں کی زبانی ایسے ایسے ریمارکس بعض مقدمات کی سماعت کے دوران منظر عام پر  آ رہے ہیں،جو سرا  سر حقیقت پسندانہ اور ملکی حالات کی عکاسی کرتے ہیں۔انہی دِنوں اسلام آباد ہائیکورٹ میں سی ڈی اے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات نہ ہونے کا تذکرہ ہوا۔عدالت عالیہ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے کیس کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ قانون کے مطابق تمام اختیارات سی ڈی اے سے ایم سی آئی کو منتقل ہونا تھے،جو کچھ سی ڈی اے بورڈ کر رہا ہے یہ لوکل گورنمنٹ کے ادارے نے کرنا تھا ایک ایک روپے کے استعمال کا اختیار لوکل گورنمنٹ کا ہے۔ آئین کہتا ہے کہ عوام کے منتخب نمائندے اپنا اختیار استعمال کریں گے۔ ہائیکوٹ نے چار، سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ دیا، مگر حکومت نے اسلام آباد میں بلدیاتی الیکشن نہیں ہونے دیئے۔جسٹس محسن کیانی نے سوال کیا کہ مجھے پاکستان کا کوئی ایک ادارہ بتائیں جو اپنا کام ہینڈل کرنے کے قابل رہا ہو؟مجھے عدالتوں سمیت کوئی ایک ادارہ بتا دیں جو وہ کام کر رہا ہو جو اس کو کرنا چاہئے۔ آپ نے ماتحت عدالتوں کی حالت دیکھی ہے کوئی اداہ اِس قابل نہیں رہا کہ اپنا کام کر  سکے،کسی کو احساس ہے کہ 25کروڑ عوام کس طرح زندگی گزار رہے ہیں۔

مقامِ شکر ہے کہ ان کی یا کسی  کی بات سنانے کے لئے لسان العصر اکبر الٰہ آبادی کا سہارا میسر آیا،اس خلد آشیانی ہستی نے مدد کی اُن کی ضخیم کلیات میں بکھرے موتیوں میں سے جو چُن کر عنوان کی شکل دی ہے اسے صفحہ قرطاس پر من و عن منتقل کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ انہی کے مطلب کی کہہ رہا ہوں زبان میری  ہے بات اُن کی،انہیں کی محفل سنوارتا ہوں چراغ میرا  ہے رات اُن کی۔فقط مرا ہاتھ جل رہا ہے انہی کا مطلب نکل ر ہا ہے۔انہیں کا مضمون انہیں کا  کاغذ قلم انہیں کی دوات،ان کی روز انہی صفحوں پر بکھری کتھا کے حوالے سے انہی کا ایک شعر دعوتِ فکر دے گا:

ضمیر و خود داری دلیری حق پرستی اب کہاں 

رکھ لیا اچھا سا اِک نام اور مسلماں ہو گئے

٭٭٭٭٭

مزیدخبریں