بیل اور موچی کا بیٹا
ہر قوم کی اپنی خامیاں اور خوبیاں ہوتی ہیں، جو وقت کے ساتھ ساتھ اس قوم کا خاصا بن جاتی ہیں۔ پاکستانی قوم کی بھی دُنیا میں مختلف حوالوں سے شہرت ہے۔ اس میں شک نہیں کہ پاکستانی لوگ ملنسار، مہمان نواز، محنتی، جفا کش اور ذہین لوگ ہیں۔ دُنیا ان خوبیوں کی قدر دان ہے، لیکن ہم سادہ دل، سادہ لوح بھی ہیں۔ اگرچہ محاورات، ضرب المثل، کہاوتیں، کہانیاں اور قصے داستانیں، تجربات، مشاہدات اور جگ بیتیوں کا نچوڑ ہوتی ہیں اور سینہ بہ سینہ اور نسل در نسل چلتی رہتی ہیں، لیکن وقت کے ساتھ جدید سائنس و ٹیکنالوجی، عصری ایجادات و دریافتیں، میڈیا اور عالمگیریت کی وجہ سے انسان زیادہ باشعور اور سمجھ دار ہوتا جا رہا ہے، جس سے پرانے اور روایتی محاورات سمجھنے اور سنانے میں دقت محسوس ہوتی ہے۔ مثلاً آج کے نوجوانوں، خاص طور پر شہر میں بسنے والے بچوں کو یہ محاورہ کیسے سمجھائیں گے؟
اوکھلی میں دیا سر تو دھمکوں کا کیا ڈر
اس طرح کی اور بھی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں، جو ہماری قومی زبان کی طرف ہماری توجہ اور احساس بھی دلاتی ہیں۔ پاکستانی قوم کی دُنیا میں بہت سی مثالیں اور کہانیاں مشہور ہیں، مثلاً پاکستانی لوگ کسی بھی چیز یا مصنوعات کی نقل کرنے میں بڑے ماہر ہیں۔ آج کل انتخابات کا دور دورہ ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اس بار ووٹر کا رجحان ماضی کی نسبت مختلف ہے۔ نوجوان اور پڑھے لکھے لوگوں سے بہتر امیدواروں کو ووٹ دینے کی توقع کی جا رہی ہے۔ گاﺅں اور قصبوں میں نوجوان ووٹروں کا رجحان بہت بدل چکا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس بار ٹرن اوور بھی ماضی کی نسبت زیادہ ہو گا، تاہم بعض لوگ مجموعی صورت حال اور عام پاکستانی کی حالت زیادہ بہتر ہونے کی زیادہ امید نہیں رکھتے۔ وہ اس حوالے سے پُرامید نہیں ہیں، لیکن وہ ووٹ کی مجموعی اور اجتماعی اہمیت سے بھی زیادہ واقف نہیں ہیں۔ خاص طور پر وہ اس حوالے سے یہ دو حکایتیں سناتے ہیں:
ایک بار چوروں نے ایک بیل چوری کر لیا اور وہ اسے لے کر چل پڑے۔ بیل نے ذرا بھی مزاحمت نہ کی۔ راستے میں ایک راہ گیر نے بیل سے پوچھا کہ بھئی تم کو چور چوری کر کے دوسری جگہ لے جا رہے ہیں، تم نے ذرا بھی مزاحمت نہیں کی اور ان ظالم چور ڈاکوﺅں سے اپنے آپ کو چھڑانے کی ذرا بھی کوشش نہیں۔ یہ کیا ہے؟ کچھ تو کرو۔
یہ سن کر بیل بولا: بھئی ہم نے تو چارا ہی کھانا ہے وہ مالک ہو یا چور، ڈاکو کا گھر اس سے ہمیں فرق نہیں پڑتا۔ ہمیں تو چارا چاہئے جو مرضی لے جائے، یعنی دوسرے لفظوں میں جو مرضی جیتے یا حکومت بنائے، عوام کو تو صرف دو وقت کی روٹی چاہئے، انہیں حکومت اور اقتدار میں کون آیا، کون گیا، سے کوئی غرض نہیں ہے، یعنی عوام کی دلچسپی اپنی روزی روٹی تک ہی محدود ہے، انہیں حکومت بننے بنانے اور حکمرانوں کے آنے جانے سے کوئی دلچسپی اور غرض نہیں ہے۔
دوسرا قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک بار کسی گاﺅں کا سردار اور نمبردار فوت ہو گیا۔ گاﺅں کے موچی کے بیٹے نے اپنے باپ سے پوچھا کہ ابا گاﺅں کے نمبردار کے فوت ہو جا نے کے بعد اب اس گاﺅں کا نمبردار کون بنے گا؟ موچی نے بیٹے کو یوں جواب دیا:بیٹے ظاہر ہے کہ نمبردار کے فوت ہو جانے کے بعد اس کا بیٹا ہی نمبردار بنے گا۔ موچی کے بیٹے نے پھر باپ سے پوچھا: ابا اگر بیٹا بھی فوت ہو گیا تو پھر نمبردار کون بنے گا؟ باپ نے جواب دیا اس کا دوسرا بیٹا۔ موچی کے بیٹے نے پھر پوچھا کہ اب اگر دوسرا بیٹا بھی مر جائے، تو پھر کون بنے گا؟ باپ نے جواب دیا کہ نمبردار کا بھتیجا یا بھانجا یا کوئی قریبی رشتہ دار گاﺅں کا سربراہ بن جائے گا۔ پھر موچی کے بیٹے نے باپ سے پوچھا کہ اگر نمبردار کے سارے رشتہ دا ر بھی مر جائیں تو پھر کون نمبردار بنے گا؟
موچی اپنے بیٹے کے ارادوں اور خواہش کو بھانپ گیا۔ آخر کار تنگ آ کر اس نے اپنے بیٹے کو یوں جواب دیا: بیٹا اگر سارا گاﺅں بھی مر جائے تو، تُو گاﺅں کا نمبردار نہیں بن سکتا اور تو صرف موچی کا بیٹا ہی رہے گا، یعنی ”غریب کا بچہ کبھی اعلیٰ عہدے پر فائز نہیں ہو گا وہ غریب کا بچہ ہی رہے گا اور سارے عہدے صرف امیروں اور اس کے رشتہ داروں کے لئے ہی ہوتے ہیں۔ یہ بیل اور موچی کے بیٹے کی حکایتیں اپنی جگہ، جمہوریت کی خوبصورتی یہ ہے کہ وہ کم از کم عوام کو یہ حق ضرور دیتی ہے کہ وہ اپنی پسند سے کسی بھی امیدوار کو ووٹ ڈال سکتا ہے۔ اب یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم سوچ سمجھ کر اچھے لوگوں کا انتخاب کریں کہ جن کا ماضی بے داغ ہو، جو خدا ترس اور عوامی خدمت اور فلاح کا اچھا ریکارڈ رکھتے ہوں۔ ایماندار، محنتی اور قوم کا درد رکھتے ہوں۔ اس کے پاس پراجیکٹ، وژن اور فکر ہو۔ وگرنہ ہمارا حال بھی بیل اور موچی کے بیٹے جیسا ہوتا ہے اور ایسی حکایتیں، کہانیاں اور کہاوتیں مشہور ہوتی رہیں گی اور لوگ ان پر یقین کرتے رہیں گے۔ ٭