منشور اور انتخابی لائحہ عمل (1)
منشور وہ دستاویز ہے دورِ جدید میں جسے انتخابی مہم کا ایک اہم حصہ سمجھا جاتا ہے۔ دُنیا بھر میں سیاسی جماعتیں انتخابات سے قبل اپنے منشور کا اعلان کر کے عوام کے اذہان کو متاثر کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اگرچہ منشور پیش کرنے کی روایت ہمارے ہاں بھی موجود ہے لیکن ہمارے اہل سیاست اسے زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیتے اور یوں پاکستانی سیاسی جماعتوں کی جانب سے پیش کردہ منشور ایک تقریب رونمائی تک محدود رہتا ہے۔ دُنیا بھر میں منشور کی بنیاد پر پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا (سوشل میڈیا پر بھی) پر سیاسی جماعتیں اپنی انتخابی مہم کا آغاز کرتی ہیں۔ حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتیں یا اتحاد سابقہ حکومت کی کارکردگی کو آڑے ہاتھوں لیتی ہیں اور عوام کو یہ باور کروانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ حکومت نے فلاں فلاں شعبے میں غلطیاں کی ہیں اور ہم ان شعبوں میں اصلاحات کے ذریعے عوام کی مشکلات کو دُور کرنے کی کوشش کریں گے جبکہ دوسری جانب حکومت اپنی کارکردگی کو بہتر انداز میں اُجاگر کر کے عوام سے دوسری مدت کے لئے اقتدار میں آنے کے لئے ووٹ کی درخواست کرتی ہے۔
دُنیا کے جدید جمہوری ممالک میں حکومت کا اپنی مدت ختم ہونے کے بعد دوسری مدت کے لئے اقتدار میں آنا اچنبھے کی بات نہیں لیکن تیسری دُنیا اور ترقی پذیر ممالک (جہاں جہاں جمہوری نظام قائم ہے) کے عوام حکومت کی مدت ختم ہونے کے بعد اس سے بیزار ہو چکے ہوتے ہیں اس لئے بیشتر ترقی پذیر ممالک میں حزب اختلاف کو ہی اگلی حکومت تصور کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں اب تک ہونے والے تمام انتخابات میں سوائے1977ءمیں پیپلزپارٹی کے دوبارہ برسر اقتدار آنے کے (یاد رہے کہ1977ءکے انتخابی نتائج کو حزب اختلاف نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جس کا نتیجہ جولائی 1977ءمیں مارشل لاءکی صورت میں برآمد ہوا) کسی جمہوری حکومت کے دوبارہ برسر اقتدار آنے کی کوئی مثال نہیں اس میں بلاشبہ قصور ان طالع آزماﺅں کا ہے، جنہوں نے بار بار ملک میں جمہوری عمل کو سبوتاژ کیا اگر جمہوریت کو پنپنے کا موقع فراہم کیا جائے تو ترقی پذیر ممالک میں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ حکمران جماعت کو مسلسل کئی بار حکومت میں رہنے کا موقع ملتا رہا ہو۔
اپنے پڑوسی بھارت کو ہی لیجئے، موجودہ حکمران اتحاد یونائیٹڈ پروگریسو الائنس میں شامل سب سے بڑی جماعت انڈین نیشنل کانگرس کو کئی بار موقع ملا کہ وہ مسلسل دو مدتوں کے لئے حکومت بنا سکے۔ ویسے بالعموم دنیا بھر میں عوام جاتی ہوئی حکومت سے متنفر ہوتے ہیں اس لئے دوسری مدت کے لئے اقتدار کا حصول امریکہ جیسے ملک جسے دُنیا کی قدیم ترین جمہوریت ہونے کا اعزاز حاصل ہے، میں بھی آسان نہیں ہوتا۔ امریکہ اور یورپ کے بھی بہت سے ممالک میں خارجہ پالیسی انتخابات پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ 2004ءمیں امریکہ میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں رپبلکن پارٹی کے جارج واکر بش کی کامیابی افغانستان کے حوالے سے ان کی پالیسی کی مرہون منت تھی، لیکن معیشت، صحت اور تعلیم جیسے معاملات بھی امریکہ میں انتخابات پر اثر انداز ہوتے ہیں اس لئے امریکہ کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں ان شعبوں سے متعلق پالیسیوں کو خاص اہمیت دیتی ہیں۔
نومبر 2008ءمیں ہونے والے امریکی انتخابات خالصتاً معاشی حکمت عملی کی بنیاد پر لڑے گئے اور ان انتخابات میں خارجہ پالیسی کی اہمیت نسبتاً کم تھی۔ 2008ءکے انتخابات میں سیاہ فام بارک حسین اوباما نے سفید فام جان مکین کو اِسی بنیاد پر شکست دی کیونکہ اوباما کا عوام سے وعدہ تھا کہ وہ انہیں غیر ضروری جنگوں سے نکال کر خوشحالی اور ترقی کی حقیقی منزل کی جانب لے جائیں گے۔2008ءسے2012ءکے دوران امریکی معیشت کو سخت حالات کا سامنا رہا۔ 2008ءسے 2010ءکے دوران اوباما حکومت کے ابتدائی دو سال بہت مشکل رہے، ملک میں مہنگائی، بیروزگاری اور افراط زر میں اضافہ ہوا، کئی اہم اداروں جیسے جنرل موٹرز اور لیہمن برادرز کا دیوالیہ نکل گیا، جن کو بچانے کے لئے حکومت کو اربوں ڈالر کے بیل آﺅٹ پیکیجز دینے پڑے، جن کی بدولت دوسرے شعبوں میں سبسڈی کے لئے فراہم کی جانے والی رقوم میں کٹوتیاں کرنی پڑیں لیکن پھر جولائی2011ءمیں حالات بہتر ہونا شروع ہوئے اور نومبر2012ءمیں اوباما کے دوسری مدت کے انتخاب تک بتدریج بہتر ہوتے چلے گئے۔
2010ءمیں امریکہ میں شرح بیروز گاری 12.7 فیصد تک جا پہنچی (تاریخ کی بلند ترین سطح پر) جو بتدریج کم ہو کر نومبر 2012ءمیں5.4فیصد تک رہ گئی (اب یہ شرح 4.8 فیصد ہے) اس کے باوجود نومبر2012ءمیں ہونے والے صدارتی انتخابات سیاہ فام بارک اوباما کے لئے بہت بڑا چیلنج تھے انتخابات سے قبل سروے ان کی اور ان کے حریف رپبلکن امیدوار مٹ رومنی کی مقبولیت یکساں بتا رہے تھے۔ انتخابات سے قبل ہونے والے پہلے صدارتی مباحثے میں بھی صدر اوباما کو شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس کے باوجود اوباما خاصے مارجن سے انتخابات جیتنے میں کامیاب ہو گئے اس کی وجہ تھی عوام پر اوباما کا اعتماد۔ 2012ءکے اوائل سے ہی امریکی صدر نے عوام کو یہ باور کروانا شروع کر دیا تھا کہ انہوں نے عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کی بھرپور کوشش کی، لیکن وہ اکثریتی منصوبوں کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا پائے۔ اوباما نے عوام کو بتایا کہ اپنے ایک وعدے کی تکمیل کرتے ہوئے انہوں نے نومبر2011ءمیں عراق سے امریکی افواج کا انخلاءمکمل کر لیا ہے اور افغانستان سے فوجی انخلاءکے لئے دسمبر 2014ءکا ٹائم فریم دے دیا ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے تعلیم، صحت، معیشت اور سوشل سیکیورٹی کے حوالے سے عوام سے جو وعدے کئے تھے وہ ان کو پورا نہیں کر سکے لیکن وہ عوام کو یقین دلاتے ہیں کہ وہ اپنی دوسری مدت کے دوران ان وعدوں کو پورا کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔
اوباما کی جانب سے17لاکھ غیر ملکی تارکین وطن کو امریکی شہریت دینے کے فیصلے کی بھی پذیرائی ہوئی اور یوں وہ ایک بار پھر چار سال کے لئے امریکی عوام کا مینڈیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ بالکل اِسی طرح2004ءسے2009ءکے دوران بھارت میں قائم رہنے والے یونائیٹڈ پروگریسو الائنس کی حکومت کا بھی جب2009ءمیں اختتام ہوا تو بھارت میں بھی افراط زر اور بیروز گاری میں خاصا اضافہ ہو چکا تھا، صنعتی شعبہ مشکلات کا شکار تھا۔ کانگرس کی حکومت نے عوامی فلاحی منصوبوں کا آغاز کر دیا تھا لیکن 2009ءتک ان کے اثرات عام آدمی پر نہیں پڑے تھے، کیونکہ وہ ان سہولتوں سے بہرہ مند نہیں ہو پائے تھے جن کا چرچا حکومت کرتی رہی، لیکن اس کے باوجود بھارتی عوام نے یونائیٹڈ پروگریسو الائنس کو پہلے سے زیادہ نشستیں دلوا کر پانچ سال مزید حکومت کرنے کا مینڈیٹ فراہم کر دیا۔ 2004ءمیں یو پی اے نے 204 نشستیں حاصل کی تھیں جبکہ2009ءکے انتخابات میں اس کی حاصل کردہ نشستوں کی تعداد 254 تھی۔ بھارت میں حزب اختلاف کی جماعتوں کا انتشار جاری ہے ، جبکہ موجودہ حکومت کی کارکردگی پچھلی مدت کے مقابلے میں کہیں بہتر ہے۔ (جاری ہے) ٭