تجزیہ نگاروںسے

تجزیہ نگاروںسے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان کے ایک معروف تجزیہ نگار کو نجی ٹی وی پر تجزیہ کرتے سنا وہ حالات حاضرہ پر جامع اور سود مند گفتگو فرما رہے تھے۔ ایک مقام پر انہوں نے قرآن پاک سے ایک واقعہ کا حوالہ دیا۔ اور فرمایا معاملات میں حکمت و بصیرت سے کام لینا سیکھئے ۔ جیسے حضرت محمدﷺ نے صحابی حضرت حاطب بن ابی بلتعہ ؓ کو خط لکھنے پر معاف کر دیا۔ مجھے یقین ہے کہ عام سننے والوں کو اس واقعے کا سیاق و سباق سے نہ پتہ ہو گا نہ وہ سمجھ پائے ہوں گے۔ حالانکہ یہ قرآن پاک کا ایک ایسا واقعہ ہے کہ اگر اسے پاکستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو محسوس ہو گا کہ قرآن پاک کا حوالہ ان حالات میں رہنمائی کے لئے مشعلِ راہ ہے۔
میں نے جسارت کر کے تجزیہ نگار سے بات کرنے کی کوشش کی مگر میری پہلی کوشش ناکام ہوئی بعد میں موصوف کا فون آیا۔ میں نے کہا آپ نے اپنے تجزیہ میں قرآن پاک کا جو حوالہ دیا تھا وہ اگرچہ بہت اہم ہے اور ہمارے حالات سے انتہائی مطابقت رکھتا ہے لیکن حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ قرآنی حوالہ جات کو صراحت و وضاحت کے ساتھ پیش کیا جائے۔ موصوف نے میری بات سنی ان سنی کرتے ہوئے یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ ”ابھی مصروف ہوں بعد میں فون کرونگا“۔ مگر فون آنا تھا اور نہ آیا۔
یہ واقعہ جو انتہائی اہمیت کا حامل ہے پاکستان کے موجودہ حالات کے ساتھ خاص مطابقت رکھتا ہے، چاہتا ہوں کہ اسے اجمالاً بیان کردوں....اللہ رب العزت کی طرف سے سورہ الممتحنہ شان نزول اور موضوع کے لحاظ پاکستان کے حالات اور وقت کے اہم تقاضوں کو پورا کرتی ہے۔ ویسے تو پورے کا پورا قرآن پاک ہی انسانیت کی رہنمائی اور ہدایت کے پیغامات سے بھرا ہوا ہے مگر بہت کم لوگ اس کو سمجھتے اور اس پر عمل کرتے ہیں۔ اس سورہ کا پس منظر کچھ یوں ہے....حضرت محمدﷺ نے صلح حدیبیہ کے معاہدے کے بعد محسوس کیا کہ مسلمانوں کو دینی امور کی انجام دہی کے لیے وقت مل جائے گا اور وہ اپنی عسکری قوت کو مستحکم کر سکیں گے مگر ہو ایہ کہ قریش نے اس معاہدے کو توڑ دیا۔ جب یہ خبر مدینہ پہنچی تو حضرت محمدﷺ نے چند صحابہ ؓ کے ساتھ مشورہ کیا کہ عہد شکنی کے خلاف ہمیں جنگ کی مکمل تیاری کرنا چاہیے۔ اس مشورہ میں ایک صحابی جن کا نام حاطب بن ابی بلتعہؓ تھابھی موجود تھے۔ وہ پریشان ہوئے کہ ان کے اقرباءمکہ میں ہیں ان کی حفاظت کا کوئی بندوبست نہ ہے اور نہ ہی وہ کسی بڑے قبیلہ کے افراد ہیں۔ یہ نہ ہو کہ وہ تمام اس جنگ میں مارے جائیں۔انہوں نے خفیہ طور پر ایک خط مکہ کے قریش کے نام لکھا جس میں مسلمانوں کی طرف سے جنگ کی تیاری کی خبر تھی۔
انہی ایام میں ایک عورت مکہ سے مدینہ آئی۔ اس نے کسمپرسی کی حالت میںحضرت محمدﷺ سے امداد کی خاطر ملاقات کی جو کہ پوری کر دی گئی۔ وہ واپس جانے لگی تو حضرت حاطب بن ابی بلتعہؓ نے اسے مکہ کے سرداروں کے نام خط دیا، کچھ رقم بھی دی تا کہ راز فاش نہ کرے۔ جونہی وہ مدینہ سے روانہ ہوئی ، اللہ تعالیٰ نے بنی اکرمﷺ کو مطلع کر دیا۔ آپ نے فوراً حضرت علیؓ، حضرت زبیرؓ اور حضرت مقدادؓ کو حکم دیا کہ جلدی سے جاﺅ روضہ خاخ کے مقام پر جو مدینہ سے 12میل مکہ کی جانب واقع ہے، تم کو ایک عورت ملے گی جس کے پاس مشرکین کے نام حاطبؓ کا ایک خط ہے۔ اگر خط مل جائے تو اسے چھوڑ دینا نہ دے تو قتل کر دینا۔ مگر وہ خط صحابہؓ نے حاصل کر لیا اور حضورﷺ کی خدمت میں پیش کر دیا ۔ اس واقعہ پر سورہ الممتحنہ کی پہلی دو آیات کا ترجمہ یہ ہے۔
(ترجمہ) ”اے لوگو جو ایمان لائے ہوا گر تم میری راہ میں جہاد کرنے اور میری رضا جوئی کی خاطر(وطن چھوڑ کر نکلے ہو تو) ۱۔ میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناﺅ.... ۲۔ تم ان کی طرف دوستی کا ہاتھ نہ بڑھاﺅ۔ حالانکہ جو حق تمہارے پاس آیا ہے۔ اس کو ماننے سے وہ انکار کر چکے ہیں اور ان کی روش یہ ہے کہ رسولﷺ کو اور خود تمہیں صرف اس قصور پر جلاوطن کیا کہ تم اپنے رب، اللہ پر ایمان لائے ہو۔اب تم ان کو چھپ کر پیغام بھیجتے ہو۔ حالانکہ جو کچھ تم خفیہ کرتے ہو اور جو اعلانیہ کرتے ہو، ہر چیز اللہ خوب جانتے ہیں۔ جو شخص بھی تم میں سے ایسا کرے وہ یقینا راہ راست سے بھٹک گیا۔
آیت2۔ دشمنوں کا رویہ تو یہ ہے کہ اگر تم پر قابو پا لیں تو تمہارے ساتھ دشمنی کریں اور ہاتھ اور زبان سے تمہیں تکلیفیں پہنچائیں، وہ دشمن تو چاہتے ہیں کہ تم کسی طرح کافر ہو جاﺅ“.... غور فرمائیں کہ ان آیات میں جہان ایک طرف خبر دی جا رہی ہے وہاں انتباہ بھی ہے کہ خبردار اپنے دشمنوں سے محتاط رہنا۔ یہ پیغام کسی بھی قسم کے ابہام سے پاک اور واضح ہے۔
آیات کی ان واضح اور صریح تفصیل کے بعد کیا ہمارے پاس کوئی جواز رہ جاتا ہے کہ ہم ان ہدایات کے خلاف تعلیمات پر ڈھٹائی کے ساتھ عمل کرتے رہیں؟ ان واضح اعلانات و احکامات کے آئینے میں اللہ رب العزت نے فرمایا ہے کہ ہم اپنے حالات اور رویوں کا جائزہ لیں اور پھر بتائیں کہ کسے موردِ الزام ٹھہرائیں۔
ہم پاکستانی ایک ایسی قوم ہیں جس نے اس وطن کے حصول کے لئے قربانیاں دیں، ہجرت کی، جبکہ دشمنوں نے اس دوران بے دریغ قتل و غارت کا بازار گرم کیا اور ہم آگ اور خون کا دریا پار کر کے منزلِ مُراد تک پہنچے جسے کلمہ کی بنیاد پر حاصل کیا گیا تھا۔ بتایا گیا تھا کہ یہاں دین اسلام کا بول بالا ہو گا۔ اللہ کے فرمودات اور اس کے رسولﷺ کی تعلیمات کی حاکمیت قائم ہو گی۔ آج بھی قوم اسی انتظار میں ہے کہ شاید کوئی مسیحا آئے اور اس ملک کو جن مقاصد کی تکمیل کی خاطر حاصل کیا گیا یعنی دین اسلام کا گہوارہ بنا دے۔یہ پکار آج بھی وادیوں ، صحراﺅں اور ہواﺅں میں گونج رہی ہے کہ جن مقاصد کی خاطر ملک حاصل کیا گیا اس کے اصول تو چودہ سو سال پہلے ہی وضع کئے جا چکے تھے۔ ہمارا کام تو نہایت ہی آسان تھا، بس ان اصولوں کی پاسداری اور ان پر عملدرآمد کرنا .... مگر ہم ماڈرن بن گئے ہیں۔
اب آئیے کہ حضرت محمدﷺ نے حضرت حاطب ؓ کے ساتھ کیا معاملہ کیا۔ جب حضرت محمدﷺ کو خط ملا اور حاطب کو طلب کیا گیا۔ سارے صحابہؓ موجود تھے پوچھا کیا ماجرا تھا۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہﷺ میرے اقرباءمکہ میں موجود ہیں اگر جنگ ہوئی تو وہ مارے جائیں گے۔ میں نے ان ہی کی حفاظت کے پیش نظر خط لکھا تھا۔ رسول اللہﷺ نے کہا کہ تم نے سچ کہا۔ اس پر حضرت عمرؓ نے عرض کی: ’یا رسول اللہ اگر اجازت ہو تو میں اس کی گردن کاٹ دوں، اس نے خیانت کی ہے، رسول رﺅف و رحیم نے ارشاد فرمایا اے عمرؓ! تمہیں کیا خبر یہ شخص جنگ بدر میں شامل تھا اور اللہ رب العزت نے اسے معاف کر دیا اور اس سے راضی ہو گیا.... اب آئیے قومی مسئلہ کی طرف جس پر تجزیہ نگار اظہار خیال فرما رہے تھے اور موضوع زیربحث جنرل مشرف اور حالیہ چیف آف آرمی کا بیان تھا جس سے پورے حلقہ میں کھلبلی مچ گئی۔ تجزیہ نگار نے فرمایا کہ ہمیں بھی حکمت سے کام لینا چاہیے آخر حضرت محمد ﷺ نے بھی حضرت حاطب جنہوں نے کافروں کو خط لکھا تھا معاف کر دیا۔ جنرل مشرف نے بھی عدالت کے سامنے یہ بیان دیا تھا کہ ’میرے اوپر ملک و قوم کا ایک روپیہ بھی ناجائز حرام ہے، میں نے پاکستان کی دو جنگوں میں بھرپور حصہ لیا، میں نے پاکستان کے کوئی راز فاش نہیںکئے‘۔ مزید یہ کہا کہ ’جن لوگوں نے ملک و قوم کے خزانہ کو لوٹا وہ آج اسمبلیوں میں براجمان ہیں۔جنہوں نے راز افشا کیے وہ معزز شہری ہیں۔ عدالت کو انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا چاہیے۔
آخر میں جنرل راحیل شریف صاحب کے حوالے سے ایک واقعہ پیش کر دیتا ہوں ہمارا 12افراد پر مشتمل ایک گروپ کسی سفر پر تھا۔ ایک دن ہم سب ناشتہ پر اکٹھے تھے کہ بات شروع ہوئی کہ جنات کیا کھاتے ہیں۔ اور آپ کو اندازہ ہے ایسے فرصت کے لمحات میں بحث طویل ہوجاتی ہے۔بہر حال کسی نے کچھ کہا ،کسی نے کچھ رائے دی کہ یہ کھاتے ہیں وہ کھاتے ہیں۔ جب بحث طول پکڑ گئی ایک مقام پر میں نے حیرت سے کہا کہ اچھا یہ بھی کھاتے ہیں جیسے ہی میں نے کہا تو میرے سامنے بیٹھے ہوئے بظاہر ایک مزدور ٹائپ غریب جس کے کپڑے بھی کوئی خاص نہ تھے اور شکل بھی کوئی متاثر کرنے والی نہ تھی۔ وہ بڑے غصے میں بولا ”اب بس بھی کرو پیچھے ہی پڑ گئے ہو“۔ یہ سنتے ہی سراسیمگی چھا گئی اور سناٹا۔۔۔ میں نے کہا جن تو ہماری صفوں میں ہے۔ مختصر یہ کہ بعد میں وہی شخص دوران سفر میرا اچھا دوست بن گیا۔
درخواست یہ ہے کہ اس قوم کے پاس وقت کم ہے،کام بہت ہیں۔ شکر ہے موجودہ حکومت صحیح راہ پر گامزن ہے۔ حکومت اور عوام کو فروعی مسائل میں الجھنے کے بجائے اہم قومی مسائل کی طرف توجہ مبذول کرنی چاہیے اور میڈیا کو بھی فروعی بحث و مباحثہ سے اجتناب کرنا چاہیے ہر معاملے کو حکمت و بصیرت کے ساتھ ناظرین ، قارئین اور سامعین کے سامنے رکھنا چاہیے۔

مزید :

کالم -