پانامہ لیکس کی تجارت
کپتان آسمان چھونے کے زعم میں گم ہیں اور ادھر دھرتی ان کے پاؤں تلے سے کھسکا چاہتی ہے ۔گماں گزرتا اور قیاس چاہتا ہے کپتان کی تقدیر اپنے عروج کی خوشہ چینی کر چکی ۔قصہ گو کالم نویسوں اور شعلہ و شبنم مزاج اینکروں کے بل بوتے پر جتنی پرواز وہ کر سکتے تھے ۔۔۔اس سے بھی زیادہ کر گزرے ۔ پانامہ لیکس کی سیاست اور احتساب کی تجارت میں اگر وہ نئے الیکشن لے بھی مریں تو کیا وزارت عظمیٰ کا ہما ان کے سر پر بیٹھ جائے گا؟ انہیں تو اپنے رومان،ہیجان اور احتجاج کے لئے کوئی بہانہ یا کوئی بندھن چاہئے ۔ان کے دھرنے کا دجل داخلِ دفتر ہوا توپانامہ لیکس ان کے دل میں پھول کھلا گئی ۔اب وہ ہیں اور پانی کا بہاؤ ہے کہ بس تیرتے چلے جاتے ہیں ۔یہ الگ بات کہ نعشیں پانی کی روانی کے ساتھ ہی تیرتی آئی ہیں اور زندہ انسان مخالف سمت۔ نواز شریف کی کشتی اول تو ڈوبنے والی نہیں اور اگر ڈوبی بھی تو بیچ منجدھار ڈوبے گی۔اور کپتان کی ناؤ؟دریا کے کنارے پر بابا!منہ زور موسموں اور طغیانی کی رتوں میں ناؤ ڈوب جایا کرتی ہے ۔۔۔؟ڈوب جاتی ہو گی پر بہادروں کی بیچ منجد ھار اور بزدلوں کی ساحلوں پر ۔
شام ڈھلے گلے میں گجرے کے ہار کسی نہ کسی بالا خانہ کا پتہ دیتے ہیں۔ مہ وش اور پری پیکر آنکھوں کے سرخ ڈورے کسی دوسرے کے نصیب جاگنے کا سندیسہ لاتے ہیں۔تعصب وعداوت کی چڑھی ہوئی کمانیں حاسدین اور مخالفین کا نام لئے بغیر تعارف کرائے دیتی ہیں ۔الزام و دشنام کی چلی ہوئی بادِ صرصردھول اور دھنک میں بھی تفریق کرا جاتی ہے۔انتشار واضطراب اورخواہشات و خیالات کے جلو میں بھانت بھانت کی بولیاں مینارہ بابل کا منظر تو پیش کر سکتی ہیں ۔ان سے لیکن مستقبل سنور اور نکھر نہیں سکتا ۔اعتزازاحسن لفظوں کے لالہ و گل کھلانے اور جملوں کے طوطا ومینا اڑانے میں یدِ طولیٰ رکھا کئے۔انہیں اپنے مال کی تو نہیں پر پرائی دولت کی بڑی فکر ہے ۔کہاں سے آئی ؟ اور کیسے آئی ؟کا مرضِ شقیقہ انہیں ستائے مارتا ہے۔میاں صاحب نے پانامہ لیکس کے ضمن میں دربارِ زرداری کی چوکھٹ پر جبیں نہیں جھکائی تو ان کا کچا جی الہڑ دوشیزہ کی طرح ٹوٹ کر بکھر گیا ۔ اب وہ ہیں اور حکومت کے خلاف ان کے نالے ہیں ۔بقول مصلح الدین راجیکی:
ہجر کی شب نالہ دل وہ صدا دینے لگے
سننے والے رات کٹنے کی دعا دینے لگے
درد جتنا بھی لادوا ہو دیر سویر اعتزاز کی سحر تو خیر گزررہے گی۔باتوں کا جھاڑ باندھنے اور ماضی میں اپنی سی وی ’’مسیحا نما سامری‘‘کو ارسال کرنے والے جڑواں شہر کے فرزند کے درد کی دوا کون کرے ؟بر صغیر میں روحانی تجارت کی روایت خاصی معروف چلی آتی ہے ۔شیخ رشید شاید پہلے آدمی ہوں جنہوں نے میڈیا کی منڈی میں سیاسی جھوٹ کی تجارت کو فروغ دیا ہو ۔ناگاہ نگاہ لوٹ آئے تو ٹھیک ورنہ شیخ کی بارگاہ میں لوگ اکثر گھائل ہی ہوا کئے۔ان کی چشمک و چپقلش اور شوخیاں وشطحات کا سودا پریس کے بازار میں خوب بکتاہے۔ دھرنے کا دفتر ابتر ہونے سے پہلے پہلے ان کے کشف و الہامات اور سلوک و منازل کی باتیں ۔۔۔بھولنے والے کب بھولے ہیں۔بلاشبہ وہ بھول گئے وہ دن جب کپتان ازراہ حقارت و تمسخر کہا کئے ۔’’او شیدا ٹلی۔۔۔میں تو اسے چپڑاسی بھی نہ رکھوں‘‘۔جی ہاں!کپتان نے اپنی روایت اور طبیعت کے باعث اپنا کہا سچ کر دکھایا کہ چپڑاسی تو نہیں رکھا البتہ مشیر ضرور لے لیا۔انہیں ہی مشیر ہونا تھا کہ دونوں کے دکھ جو مشترک تھے یارو!اعتزاز احسن کی مانند شیخ صاحب عبارت ،اشارت ،ادااور انداز سبھی میں ماہر ومشاق اور طاق ہیں ۔
ایک عمران خان،اعتزاز احسن اور شیخ رشید پر ہی منحصر نہیں کہ یہاں ہر آدمی اپنی انجمن میں شہہ کا مصاحب بنا پھرتا ہے ۔خورشید شاہ کو تو ذرا دیکھو کہ ایک ہی سانس میں گرم اور سرد پھونکیں مارا کئے ۔چکری کے چودھری نے اگر پنڈی کے پٹوار سرکل کو پورا پاکستان سمجھ رکھا ہے تو شاہ جی نے بھی سکھر کو جہانِ جاناں جانا ہے ۔پولیٹیکل سائنس کی اصطلاح میں اپوزیشن لیڈر کا کام ہی حکومت پر نکتہ چینی کرنا ہوتا ہے۔ہوتا ہو گا کہ بھٹو کے بقول ابھی ہماری سیاست جنگل سے نہیں نکلی۔جمہوریت تو خیر ہنوز خطرات کے جنگل سے نہیں نکلی ،کیا دماغ بھی خلل اور دلدل سے نہیں نکلے؟بھلا خورشید شاہ ایسا مرنجاں مرنج آدمی بھی نہیں جانتا کہ پانامہ لیکس کی تحقیقات وقت کے ضیاع یا پھر تفنن طبع کے سوا اور کچھ بھی نہیں ۔پہلے ایڑھیاں اٹھا اٹھا اور گلا پھاڑ پھاڑ کر عدالتی تحقیقاتی کمیشن کا مطالبہ تھا ۔۔۔وہ بن گیا تو منچلوں اور سیماب صفتوں کے سر میں سودا سمایا ۔۔۔حاضر سروس جج کی سربراہی ہونی چاہئے۔وہ بھی ہوا تو تلون مزاجی کے جی میں شب کو کیا آئی کہ عریاں ہو گئیں۔
کوئی اٹھے اور بلندآہنگ احتجاج کرے کہ کاروبارِ سیاست ایسے چلتا ہو تو چلتا ہو ۔۔۔ملکی تعمیرو ترقی اور قومی فوز وفلاح ایسے نہیں ہوتی بابا!صحرا میں گرے پڑے اولے اور خشک پتوں پر جمی ریت ۔۔۔ان کے پیچھے طاقت وتوانائی صرف کرنا آخر کس چانکیہ کا کلیہ ہے؟پتھروں کی کوکھ سے جنم لیا ہو تو بات دوسری ہے ،ورنہ سیاست کے یہ ڈھنگ ہمیں مزید بے ڈھنگے بنا دیں گے۔گردشِ ایام کی کروٹیں اور لیل و نہار کی صداقتیں گواہ ٹھہریں کہ انہی اقوام و ملل نے ارتقا کی شاہراہ کو جا پکڑا۔۔۔جن کے ہاں سیاست میں استحکام و استقلال تھا۔ اضطراب و انتشار اور احتجاج کی سیاست کسی نئے المیے کو تو جنم دے سکتی ہے ۔۔۔کسی نئی صبح یا ان کی اپنی زبان میں تبدیلی کا اہتمام نہیں کر سکتی۔