کرکٹ کے لاڈلے؟ نئی حرکات، سزا ضروری ہے!
پاکستان کرکٹ کے ساتھ جو ہوا اس کا کوئی جواز نہیں تھا اور بار بار یہ بتایا گیا کہ بورڈ کے معاملات ٹھیک نہیں ہیں یہاں اقربا پروری اور چشم پوشی کا راج ہے۔یہ بات اب پھر ثابت ہو گئی ہے جب یونس خان نے ضابطے کی اتنی بڑی خلاف ورزی کی کہ اس کو زندگی بھر کے لئے کرکٹ سے دور کر دینا چاہئے تھا کہ یونس خان کا یہ پہلا اقدام نہیں، لیکن اس بار تو حد ہوئی پہلے امپائر سے جھگڑا کیا اور پھر میچ چھوڑ کر شہر ہی سے کراچی واپس چلے گئے اس کے باوجود چیئرمین کہتے ہیں کہ یونس خان نے ٹیلیفون پر معافی مانگ لی اور پھر سے کھیلنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے، شہریار خان کے مطابق یونس خان کا ’’جرم‘‘ معاف کر دیا گیا ہے۔دوسری طرف ٹیم کے دو ’’لاڈلے‘‘ پھر سے خبروں کی زد میں آئے۔ احمد شہزاد بیٹ مار کر ڈریسنگ روم کا شیشہ توڑنے کو معمولی بات قرار دیتے ہیں اور عمر اکمل تھیڑ میں جا کر تماشائیوں کے روبرو ہنگاموں کو ذاتی زندگی قرار دے رہے ہیں، یہ بھی معلوم نہیں کہ قومی کھلاڑی کی ذاتی زندگی صرف اس کے گھر تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے، گھر سے باہر اس کی کوئی ذاتی زندگی نہیں کہ وہ قومی ہیرو ہوتا ہے۔عمر اکمل کی یہ حرکت پہلی نہیں، آخرا س کے دو دوسرے بھائی بھی تو قومی کرکٹ میں ہیں وہ ایسی حرکات کے مرتکب کیوں نہیں ہوتے؟ عمر اکمل تو اپنے والد کو بھی شرمندہ کرا چکے ہیں۔اس مرتبہ یونس خان، عمر اکمل اور احمد شہزاد کی طرف سے ان کی بے ضابطگیوں سے چشم پوشی کی گئی تو نظم و نسق کے سارے دعوے بے کار ہوں گے۔ ان حضرات کو ان کی حرکات کے مطابق سزا ضروری ہے اور اس کی تشہیر لازم ہے تاکہ دوسروں کو اس سے سبق حاصل ہو۔